یوں پریشاں کبھی ہم بھی تو نہ تھے
Appearance
یوں پریشاں کبھی ہم بھی تو نہ تھے
ایسے اس زلف میں خم بھی تو نہ تھے
سیر گلشن کو گئے تھے جب آپ
یاد تو کیجئے ہم بھی تو نہ تھے
ہم سے بے جرم وہ کوچہ چھوٹا
شائق باغ ارم بھی تو نہ تھے
رحم کرتا نہ فلک کیا کرتا
ہم سزا وار ستم بھی تو نہ تھے
رہتے کعبہ میں اکیلے کیا ہم
دل لگانے کو صنم بھی تو نہ تھے
ہاتھ کیوں سر پہ ہمارے رکھا
تم سے خواہان قسم بھی تو نہ تھے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |