یوں گلشن ہستی کی مالی نے بنا ڈالی
Appearance
یوں گلشن ہستی کی مالی نے بنا ڈالی
پھولوں سے جدا کلیاں کلیوں سے جدا ڈالی
سر رکھ کے ہتھیلی پر اور لخت جگر چن کر
سرکار میں لائے ہیں ارباب وفا ڈالی
رویا کہوں میں اس کو یا مژدۂ بیداری
غل ہے کہ نقاب اس نے چہرے سے اٹھا ڈالی
اللہ رے تصور کی نقاشی و نیرنگی
جب بن گئی اک صورت اک شکل مٹا ڈالی
ساقی نے ستم ڈھایا برسات میں ترسایا
جب فصل بہار آئی دوکان اٹھا ڈالی
خون دل عاشق کے اس قطرے کا کیا کہنا
دنیائے وفا جس نے رنگین بنا ڈالی
بیدمؔ ترے گریہ نے طوفان اٹھا ڈالے
اور نالوں نے دنیا کی بنیاد ہلا ڈالی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |