یوں ہی گر ہر سانس میں تھوڑی کمی ہو جائے گی
یوں ہی گر ہر سانس میں تھوڑی کمی ہو جائے گی
ختم رفتہ رفتہ اک دن زندگی ہو جائے گی
دیکھنے والے فقط تصویر ظاہر پر نہ جا
ہر نفس کے ساتھ دنیا دوسری ہو جائے گی
گر یہی فصل جنوں زا ہے یہی ابر بہار
عظمت توبہ نثار میکشی ہو جائے گی
مرگ بے ہنگام کہتے ہیں جسے آج اہل درد
کل یہی صورت بدل کر زندگی ہو جائے گی
ذکر ہے زنداں میں وہ گلزار پر بجلی گری
آج میرے آشیاں میں روشنی ہو جائے گی
سجدہ گاہ عام پر سجدے سے کچھ حاصل نہیں
مفت آلودہ جبین بندگی ہو جائے گی
ختم ہے شب چہرۂ مشرق سے اٹھتی ہے نقاب
دم زدن میں روشنی ہی روشنی ہو جائے گی
متصل ہیں ضعف و قوت کی حدیں ہاں ہوشیار
ورنہ اس ترک خودی میں خودکشی ہو جائے گی
زخم بھی تازہ ہے اور دل بھی نہیں مانوس درد
رفتہ رفتہ یوں ہی عادت صبر کی ہو جائے گی
شمع سا جب شام ہی سے ہے گداز دل رواںؔ
صبح تک کیا جانے کیا حالت تری ہو جائے گی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |