یوں ہے اس دل کو دوگانا کی نشانی کی ہوس
Appearance
یوں ہے اس دل کو دوگانہ کی نشانی کی ہوس
ریت میں مچھلی کو جوں ہوتی ہے پانی کی ہوس
اپنی بیتی ہی کہا کرتی ہوں میں راتوں کو
دھیان قصہ کا مجھے ہے نہ کہانی کی ہوس
جی میں اپنے اسے نادان سمجھتی ہوں میں
دل میں جو رکھتی ہے اس عالم فانی کی ہوس
ہے درخت ایسا کہاں جس کو لگی ہو نہ ہوا
کوئی ایسا نہیں جس کو نہیں پانی کی ہوس
آرزو گر ہے مرے دل میں تو ہے رنگیںؔ کی
لال جوڑے کی خوشی کچھ ہے نہ دھانی کی ہوس
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |