یکساں کبھی کسی کی نہ گزری زمانے میں
Appearance
یکساں کبھی کسی کی نہ گزری زمانے میں
یادش بخیر بیٹھے تھے کل آشیانے میں
صدمے دیے تو صبر کی دولت بھی دے گا وہ
کس چیز کی کمی ہے سخی کے خزانے میں
غربت کی موت بھی سبب ذکر خیر ہے
گر ہم نہیں تو نام رہے گا زمانے میں
دم بھر میں اب مریض کا قصہ تمام ہے
کیونکر کہوں یہ رات کٹے گی فسانے میں
ساقی میں دیکھتا ہوں زمیں آسماں کا فرق
عرش بریں میں اور ترے آستانے میں
دیواریں پھاندپھاند کے دیوانے چل بسے
خاک اڑ رہی ہے چار طرف قیدخانے میں
صیاد اس اسیری پہ سو جاں سے میں فدا
دل بستگی قفس کی کہاں آشیانے میں
ہم ایسے بد نصیب کہ اب تک نہ مر گئے
آنکھوں کے آگے آگ لگی آشیانے میں
دیوانے بن کے ان کے گلے سے لپٹ بھی جاؤ
کام اپنا کر لو یاسؔ بہانےبہانے میں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |