یہاں بغیر فغاں شب بسر نہیں ہوتی
Appearance
یہاں بغیر فغاں شب بسر نہیں ہوتی
وہاں اثر نہیں ہوتا خبر نہیں ہوتی
خلش جگر میں ہے دل کو خبر نہیں ہوتی
چبھی ہے پھانس ادھر سے ادھر نہیں ہوتی
عبث ہی کل کے لئے التوائے مشق خرام
قیامت آج ہی کیوں فتنہ گر نہیں ہوتی
جو ان سے دور ہے اس کے لئے ہیں چشم براہ
ہم ان کے پاس ہیں ہم پر نظر نہیں ہوتی
اجل کو روکئے کیا کہہ کے ان کے آنے تک
کہ اب تو بات بھی اے چارہ گر نہیں ہوتی
وہ آ گئے ہیں تو آنسو ضرور پونچھیں گے
اب آنکھ کیوں مری اشکوں سے تر نہیں ہوتی
کمال بے ہنری سے غنی ہوں میں احسنؔ
مجھے ضرورت عرض ہنر نہیں ہوتی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |