یہ اک تیرا جلوہ صنم چار سو ہے
Appearance
یہ اک تیرا جلوہ صنم چار سو ہے
نظر جس طرف کیجیے تو ہی تو ہے
یہ کس مست کے آنے کی آرزو ہے
کہ دست دعا آج دست سبو ہے
نہ ہوگا کوئی مجھ سا محو تصور
جسے دیکھتا ہوں سمجھتا ہوں تو ہے
مکدر نہ ہو یار تو صاف کہہ دوں
نہ کیونکر ہو خودبیں کہ آئینہ رو ہے
کبھی رخ کی باتیں کبھی گیسوؤں کی
سحر سے یہی شام تک گفتگو ہے
کسی گل کے کوچے سے گزری ہے شاید
صبا آج جو تجھ میں پھولوں کی بو ہے
نہیں چاک دامن کوئی مجھ سا گویاؔ
نہ بخیہ کی خواہش نہ فکر رفو ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |