یہ بات بات میں کیا نازکی نکلتی ہے
یہ بات بات میں کیا نازکی نکلتی ہے
دبی دبی ترے لب سے ہنسی نکلتی ہے
ٹھہر ٹھہر کے جلا دل کو ایک بار نہ پھونک
کہ اس میں بوئے محبت ابھی نکلتی ہے
بجائے شکوہ بھی دیتا ہوں میں دعا اس کو
مری زباں سے کروں کیا یہی نکلتی ہے
خوشی میں ہم نے یہ شوخی کبھی نہیں دیکھی
دم عتاب جو رنگت تری نکلتی ہے
ہزار بار جو مانگا کرو تو کیا حاصل
دعا وہی ہے جو دل سے کبھی نکلتی ہے
ادا سے تیری مگر کھنچ رہیں ہیں تلواریں
نگہ نگہ سے چھری پر چھری نکلتی ہے
محیط عشق میں ہے کیا امید و بیم مجھے
کہ ڈوب ڈوب کے کشتی مری نکلتی ہے
جھلک رہی ہے سر شاخ مژہ خون کی بوند
شجر میں پہلے ثمر سے کلی نکلتی ہے
شب فراق جو کھولے ہیں ہم نے زخم جگر
یہ انتظار ہے کب چاندنی نکلتی ہے
سمجھ تو لیجئے کہنے تو دیجئے مطلب
بیاں سے پہلے ہی مجھ پر چھری نکلتی ہے
یہ دل کی آگ ہے یا دل کے نور کا ہے ظہور
نفس نفس میں مرے روشنی نکلتی ہے
کہا جو میں نے کہ مر جاؤں گا تو کہتے ہیں
ہمارے زائچے میں زندگی نکلتی ہے
سمجھنے والے سمجھتے ہیں پیچ کی تقریر
کہ کچھ نہ کچھ تری باتوں میں فی نکلتی ہے
دم اخیر تصور ہے کس پری وش کا
کہ میری روح بھی بن کر پری نکلتی ہے
صنم کدے میں بھی ہے حسن اک خدائی کا
کہ جو نکلتی ہے صورت پری نکلتی ہے
مرے نکالے نہ نکلے گی آرزو میری
جو تم نکالنا چاہو ابھی نکلتی ہے
غم فراق میں ہو داغؔ اس قدر بیتاب
ذرا سے رنج میں جاں آپ کی نکلتی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |