یہ خوب رو نہ چھری نے کٹار رکھتے ہیں
Appearance
یہ خوب رو نہ چھری نے کٹار رکھتے ہیں
نگاہ لطف سے عالم کو مار رکھتے ہیں
چراغ گور نہ شمع مزار رکھتے ہیں
بس ایک ہم یہ دل داغ دار رکھتے ہیں
شراب عشق نہ اے دوست پیجیو ہرگز
اسی نشے کا ہم اب تک خمار رکھتے ہیں
مری زبانی کوئی اس سے اس قدر پوچھے
کہیں یہ جھوٹے بھی وعدے شمار رکھتے ہیں
قیامت آ چکی دیدار حق ہوا سب کو
ہم اب تلک بھی ترا انتظار رکھتے ہیں
اگرچہ خاک برابر کیا فلک نے بیاںؔ
دماغ پر وہی ہم خاکسار رکھتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |