یہ دل وہ شیشہ ہے جھمکے ہے وہ پری جس میں
Appearance
یہ دل وہ شیشہ ہے جھمکے ہے وہ پری جس میں
بھرا ہے موئے بہ مو سحر سامری جس میں
یہ لعل لخت جگر ہے وہ لعل بیش بہا
کہ کام کرتی نہیں چشم جوہری جس میں
دیا ہے میں نے دل ایسے کو اور پریشاں ہوں
نہ مہر ہے نہ محبت نہ دلبری جس میں
خدا دو چار نہ ہم سے کرے کبھی اس کو
نکلتی ہو تری آنکھوں سے کافری جس میں
ہٹے ہے مانیؔ سے لیلیٰ کہ وہ ورق تو دکھا
لکھی ہے صورت مجنوں کی لاغری جس میں
غضب ہے تو نے نہ دیکھا وہی مرا دل تھا
بندھی ہوئی تھی ترے تیر کی سری جس میں
کسی سے کام میاں مصحفیؔ نہ کچھ رکھیے
وہ کام کیجئے ہو اپنی بہتری جس میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |