Jump to content

یہ دل وہ ہے کہ غموں سے جسے فراغ نہیں

From Wikisource
یہ دل وہ ہے کہ غموں سے جسے فراغ نہیں
by مرزا اظفری
316430یہ دل وہ ہے کہ غموں سے جسے فراغ نہیںمرزا اظفری

یہ دل وہ ہے کہ غموں سے جسے فراغ نہیں
مثال لالہ سے کیا دوں کچھ ایک داغ نہیں

گلی میں تیری ہی دل بر سے گر پڑا دلبر
میں ڈھونڈوں اور کہاں جا کہیں سراغ نہیں

ہے داغ عشق سے روشن اور آہ سرد سے سرد
ہمارے دل کا تو خس خانہ بے چراغ نہیں

پڑا جہاں ترا نقش قدم مرے گل رو
وہ گل زمیں ہے کہاں جو کہ باغ باغ نہیں

اے میرے غنچہ دہن میرے نرگس مخمور
ترے تماشے کا مشتاق کون باغ نہیں

ہے کون غنچہ صراحی بنا نہ تیرے حضور
ہے کون پھول جو مے کا ترے ایاغ نہیں

کہاں کا شعر کہاں کی غزل کہاں کی بیت
کروں جو فکر بھی اب وہ دل و دماغ نہیں

نہ اظفریؔ سے کرو نظم و نثر کا مذکور
نہ جی کچھ ان دنوں اپنا دماغ چاغ نہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.