یہ ساقی کی کرامت ہے کہ فیض مے پرستی ہے
یہ ساقی کی کرامت ہے کہ فیض مے پرستی ہے
گھٹا کے بھیس میں مے خانے پر رحمت برستی ہے
یہ جو کچھ دیکھتے ہیں ہم فریب خواب ہستی ہے
تخیل کے کرشمے ہیں بلندی ہے نہ پستی ہے
وہاں ہیں ہم جہاں بیدمؔ نہ ویرانہ نہ بستی ہے
نہ پابندی نہ آزادی نہ ہشیاری نہ مستی ہے
تری نظروں پہ چڑھنا اور ترے دل سے اتر جانا
محبت میں بلندی جس کو کہتے ہیں وہ پستی ہے
وہی ہم تھے کبھی جو رات دن پھولوں میں تلتے تھے
وہی ہم ہیں کہ تربت چار پھولوں کو ترستی ہے
کرشمے ہیں کہ نقاش ازل نیرنگیاں تیری
جہاں میں مائل رنگ فنا ہر نقش ہستی ہے
اسے بھی ناوک جاناں تو اپنے ساتھ لیتا جا
کہ میری آرزو دل سے نکلنے کو ترستی ہے
ہر اک ذرے میں ہے انی انا اللہ کی صدا ساقی
عجب میکش تھے جن کی خاک میں بھی جوش مستی ہے
خدا رکھے دل پر سوز تیری شعلہ افشانی
کہ تو وہ شمع ہے جو رونق دربار ہستی ہے
مرے دل کے سوا تو نے بھی دیکھی بیکسی میری
کہ آبادی نہ ہو جس میں کوئی ایسی بھی بستی ہے
حجابات تعین مانع دیدار سمجھا تھا
جو دیکھا تو نقاب روئے جاناں میری ہستی ہے
عجب دنیائے حیرت عالم گور غریباں ہے
کہ ویرانے کا ویرانہ ہے اور بستی کی بستی ہے
کہیں ہے عبد کی دھن اور کہیں شور انا الحق ہے
کہیں اخفائے مستی ہے کہیں اظہار مستی ہے
بنایا رشک مہر و مہ تری ذرہ نوازی نے
نہیں تو کیا ہے بیدمؔ اور کیا بیدمؔ کی ہستی ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |