یہ عجب تم نے نکالا سونا
یہ عجب تم نے نکالا سونا
رات کا جاگنا دن کا سونا
بخت خفتہ سے تو امید نہیں
ساتھ ہوگا کبھی اس کا سونا
کس قدر ہجر میں بے ہوشی ہے
جاگنا بھی ہے ہمارا سونا
مجھ سے تنگ آ کے یہ بولے شب وصل
یہ ہی تم ہو تو نہ ہوگا سونا
بس دم صبح ستاؤ نہ مجھے
یاد وہ ضد ہے وہ اپنا سونا
لے کے انگڑائی لپٹ جانا ہائے
ہائے وہ ساتھ کسی کا سونا
آپ کروٹ تو ادھر کو لیجیے
جانتا ہوں میں تمہارا سونا
سر کہیں ہاتھ کہیں پاؤں کہیں
یہ نئی دھج ہے نرالا سونا
پھر شب وصل ہو پھر ہو یارب
جاگنا میرا اور ان کا سونا
آنکھیں پھوٹیں جو جھپکتی بھی ہوں
شب تنہائی میں کیسا سونا
وہ کھلی آنکھ وہ لب پر ہے ہنسی
ہم نہیں مانتے ایسا سونا
رات آنکھوں میں گزر جاتی ہے
ان دنوں ہے یہ ہمارا سونا
ہائے وہ وصل کی شب کا عالم
ہائے وہ پچھلے پہر کا سونا
کیا لگے آنکھ جو یاد آئے نظامؔ
رکھ کے زانو پہ سر اس کا سونا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |