یہ غضب بیٹھے بٹھائے تجھ پہ کیا نازل ہوا
یہ غضب بیٹھے بٹھائے تجھ پہ کیا نازل ہوا
اٹھ چلا دنیا سے کیوں تو تجھ کو اے دل کیا ہوا
شکل ہی ایسی بنائی ہے تری اللہ نے
مت خفا ہو گر ہوا میں تجھ پہ مائل کیا ہوا
ان دنوں حالت تری پاتا ہوں میں اپنی سی یار
خوبرو تجھ سا کوئی تیرے مقابل کیا ہوا
اے بت خونخوار اک زخمی ترے کوچے میں تھا
سو کئی دن سے خدا جانے وہ گھائل کیا ہوا
زنگ ہو کر قیس کا دل کارواں در کارواں
نت یہ کہتا ہے کہ وہ لیلیٰ کا محمل کیا ہوا
فکر مرہم مت کرو یارو یہ بتلاؤ مجھے
جس کے ہاتھوں میں ہوا زخمی وہ قاتل کیا ہوا
تھا جگر تو ٹکڑے ٹکڑے بر میں کیوں تڑپے ہے تو
کیوں دلا تیغ جفا سے تو بھی بسمل کیا ہوا
رنجشیں ایسی ہزار آپس میں ہوتی ہیں دلا
وہ اگر تجھ سے خفا ہے تو ہی جا مل کیا ہوا
اپنے بیگانے سبھی ہیں مت اٹھا محفل سے یار
گر کسی ڈھب سے ہوا یاں میں بھی داخل کیا ہوا
دیکھتے ہی تیری صورت مجھ کو اے آئینہ رو
سخت حیرت ہے کہ پہلو میں نہیں دل کیا ہوا
سوچ رہ رہ کر یہی آتا ہے اے جرأتؔ مجھے
خلق کرنے سے مرے خالق کو حاصل کیا ہوا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |