Jump to content

یہ غضب بیٹھے بٹھائے تجھ پہ کیا نازل ہوا

From Wikisource
یہ غضب بیٹھے بٹھائے تجھ پہ کیا نازل ہوا
by شیخ قلندر بخش جرات
296682یہ غضب بیٹھے بٹھائے تجھ پہ کیا نازل ہواشیخ قلندر بخش جرات

یہ غضب بیٹھے بٹھائے تجھ پہ کیا نازل ہوا
اٹھ چلا دنیا سے کیوں تو تجھ کو اے دل کیا ہوا

شکل ہی ایسی بنائی ہے تری اللہ نے
مت خفا ہو گر ہوا میں تجھ پہ مائل کیا ہوا

ان دنوں حالت تری پاتا ہوں میں اپنی سی یار
خوبرو تجھ سا کوئی تیرے مقابل کیا ہوا

اے بت خونخوار اک زخمی ترے کوچے میں تھا
سو کئی دن سے خدا جانے وہ گھائل کیا ہوا

زنگ ہو کر قیس کا دل کارواں در کارواں
نت یہ کہتا ہے کہ وہ لیلیٰ کا محمل کیا ہوا

فکر مرہم مت کرو یارو یہ بتلاؤ مجھے
جس کے ہاتھوں میں ہوا زخمی وہ قاتل کیا ہوا

تھا جگر تو ٹکڑے ٹکڑے بر میں کیوں تڑپے ہے تو
کیوں دلا تیغ جفا سے تو بھی بسمل کیا ہوا

رنجشیں ایسی ہزار آپس میں ہوتی ہیں دلا
وہ اگر تجھ سے خفا ہے تو ہی جا مل کیا ہوا

اپنے بیگانے سبھی ہیں مت اٹھا محفل سے یار
گر کسی ڈھب سے ہوا یاں میں بھی داخل کیا ہوا

دیکھتے ہی تیری صورت مجھ کو اے آئینہ رو
سخت حیرت ہے کہ پہلو میں نہیں دل کیا ہوا

سوچ رہ رہ کر یہی آتا ہے اے جرأتؔ مجھے
خلق کرنے سے مرے خالق کو حاصل کیا ہوا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.