Jump to content

یہ قصوں میں جو دکھ اٹھانے بندھے ہیں

From Wikisource
یہ قصوں میں جو دکھ اٹھانے بندھے ہیں
by شیخ قلندر بخش جرات
296681یہ قصوں میں جو دکھ اٹھانے بندھے ہیںشیخ قلندر بخش جرات

یہ قصوں میں جو دکھ اٹھانے بندھے ہیں
سو الفت ہی کے سب فسانے بندھے ہیں

قفس میں سنو لو اسیران کہنہ
بہ ہر شاخ نو آشیانے بندھے ہیں

خدا جانے اس گھر میں کیا ہے کہ جس کے
کئی در کے آگے دوانے بندھے ہیں

وہ آنسو ہیں اپنے کہ سب کی گرہ میں
کئی موتیوں کے خزانے بندھے ہیں

ہوا یہ دیار محبت کی بگڑی
کہ سب رہنے والوں کے شانے بندھے ہیں

ملاقات کیا ہو رہے ٹھور بس ہم
کہ جانے کے واں تو ٹھکانے بندھے ہیں

لگیں کیوں نہ تیر نگہ دل جگر پر
کہ اس چشم کے یہ نشانے بندھے ہیں

فلک تیرے ہاتھوں بڑے تھے جو دانا
سو اب ان کے پلوں میں دانے بندھے ہیں

غضب سادہ رویوں کی ہے سادگی بھی
کہ پھینٹے عجب صوفیانے بندھے ہیں

ہوئی گھر میں شادی تمہارے تو ایسی
کہ جس کے جہاں میں فسانے بندھے ہیں

نہ بلوانے کا ہم کو شکوہ ہے دیکھو
بندھن وار اب تک پرانے بندھے ہیں

بخیل اب یہ منعم نہیں کیونکہ جرأتؔ
کسے جن کے خوانوں میں کھانے بندھے ہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.