یہ قصہ وہ نہیں تم جس کو قصہ خواں سے سنو
Appearance
یہ قصہ وہ نہیں تم جس کو قصہ خواں سے سنو
مرے فسانۂ غم کو مری زباں سے سنو
سناؤ درد دل اپنا تو دم بہ دم فریاد
مثال نے مری ہر ایک استخواں سے سنو
کرو ہزار ستم لے کے ذکر کیا یک یار
شکایت اپنی تم اس اپنے نیم جاں سے سنو
خدا کے واسطے اے ہمدمو نہ بولو تم
پیام لایا ہے کیا نامہ بر وہاں سے سنو
تمہارے عشق نے رسوا کیا جہاں میں ہمیں
ہمارا ذکر نہ تم کیونکہ اک جہاں سے سنو
سنو تم اپنی جو تیغ نگاہ کے اوصاف
جو تم کو سننا ہو اس شوخ دلستاں سے سنو
ظفرؔ وہ بوسہ تو کیا دے گا پر کوئی دشنام
جو تم کو سننا ہو اس شوخ دلستاں سے سنو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |