یہ وہ آنسو ہیں جن سے زہرہ آتش ناک ہو جاوے
Appearance
یہ وہ آنسو ہیں جن سے زہرہ آتش ناک ہو جاوے
اگر پیوے کوئی ان کو تو جل کر خاک ہو جاوے
نہ جا گلشن میں بلبل کو خجل مت کر کہ ڈرتا ہوں
یہ دامن دیکھ کر گل کا گریباں چاک ہو جاوے
گنہ گاروں کو ہے امید اس اشک ندامت سے
کہ دامن شاید اس آب رواں سے پاک ہو جاوے
عجب کیا ہے تری خشکی کی شامت سے جو تو زاہد
نہال تاک بٹھلاوے تو وہ مسواک ہو جاوے
دعا مستوں کی کہتے ہیں یقیںؔ تاثیر رکھتی ہے
الٰہی سبزہ جتنا ہے جہاں میں تاک ہو جاوے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |