یہ کوئی بات ہے سنتا نہ باغباں میری
یہ کوئی بات ہے سنتا نہ باغباں میری
کہاں اثر میں وہ ڈوبی ہوئی فغاں میری
چلی ہے آج سنانے انہیں فغاں میری
ارے ضرور یہ کٹوائے گی زباں میری
ہلی زبان کہ بجلی ہے پھر فغاں میری
خدا کرے نہ قفس میں کھلے زباں میری
وہ زلف کھول کے شرمائیں غیر کے گھر آج
کچھ اس ادا سے شب غم ہو مہماں میری
مجھے یہ ڈر ہے نہ پھولے پھلے بہار میں یہ
جھکی ہوئی ہے بہت شاخ آشیاں میری
غضب کا درد قیامت کا ہے اثر اس میں
خدا کسی کو نہ سنوائے داستاں میری
یہ دیر میں نہیں بجتے ہیں خود بخود ناقوس
حرم میں گونج رہی ہے بتو اذاں میری
تم اپنے بام سے فریاد کی اجازت دو
یہاں سے تو نہیں سنتا ہے آسماں میری
کسی کے آنے کا اب انتظار کون کرے
پکارتی ہے مجھے مرگ ناگہاں میری
کہے کہے نہ کہے کوئی مجھ کو کیا اس سے
سنیں سنیں نہ سنیں آپ داستاں میری
وہ بولے حشر میں کھل کھیلنے کو کہتے ہیں
ستا رہی ہیں مجھے آج شوخیاں میری
نہ دست ناز میں لو تیغ اس نزاکت سے
تمہارے بس کی نہیں جان ناتواں میری
زبان میں بھی اثر ہے مرے بیاں میں بھی
سنیں نہ آپ مرے منہ سے داستاں میری
جو بوسہ وصل میں مانگوں تو دیں سزا مجھ کو
جو لب ہلاؤں تو وہ کاٹ لیں زباں میری
میں ناتواں بھی گیا آج بام تک ان کے
یہ زار تھا کہ مجھے لے اڑی فغاں میری
شراب میں پس توبہ جو مانگوں بھولے سے
تو مے فروش کہے نذر ہے دکاں میری
کچھ اب کی باغ میں اس دھوم سے بہار آئے
نہ باغباں کی سنوں میں نہ باغباں میری
جو یہ کہا ہو مری آئی تجھ کو آ جائے
مجھے نصیب نہ ہو نیند پاسباں میری
پیام موت کا ہے یاد انہیں مری کیسی
کچھ آج اور ہی کہتی ہیں ہچکیاں میری
وہ بولے ابرو و مژگاں کو کیا ہوا شب وصل
دھرے رہے یوں ہی ناوک مرے کماں میری
اٹھاؤں عفو کی لذت بھی لطف عصیاں بھی
مرے کریم یہ تقدیر ہے کہاں میری
ستانے والے کو کچھ قدر ہو ستانے کی
انہیں ستائے جو مانے یہ آسماں میری
وہ میں ہوں آج زمانے کو ناز ہے جس پر
ریاضؔ دھوم ہے جس کی وہ ہے زباں میری
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |