یہ کیا کہا مجھے او بد زباں بہت اچھا
یہ کیا کہا مجھے او بد زباں بہت اچھا
سنا لی اور بھی دو گالیاں بہت اچھا
تمہیں تو اور بھی اشخاص پیار کرتے ہیں
ہمیں یہ جور و جفا مہرباں بہت اچھا
کسی پہ یوں نہیں پڑتی نگاہ خون آشام
ہمیں ہیں تیر ستم کے نشاں بہت اچھا
نہ ہو دو چار نہ بولو نہ اختلاط کرو
بہت بجا بہت انسب میاں بہت اچھا
جو میں برا تو برا اور سب تو اچھے ہیں
ملو جہاں سے جان جہاں بہت اچھا
برا بھلا ہمیں کہنے سے فائدہ کیا ہے
چمن سے جاتے ہیں اے باغباں بہت اچھا
ہمارے رہنے سے تجھ کو جو آگ لگتی ہے
جلائے دیتے ہیں ہم آشیاں بہت اچھا
کبھی جو روتے ہیں جھنجھلا کے یار کہتا ہے
میں سن رہا ہوں کرو تم فغاں بہت اچھا
خفا نہ ہو نہ کروں گا بکا بہت بہتر
نہ ہوں گے اب کبھی آنسو رواں بہت اچھا
جو زندگی ہے تو جیتا رہوں گا فرقت میں
صد ہاریے مری آرام جاں بہت اچھا
نثار لا کہ سر ایسے تمہاری قدموں پر
کریں گے آپ مرا امتحاں بہت اچھا
خدا نے نور کے سانچے میں تجھ کو ڈھالا ہے
ہزار میں ہے تو اے نوجواں بہت اچھا
مرے نگاہ میں تو حور سے کہیں بہتر ہے
مقام خلد سے تیرا مکان بہت اچھا
بہت پسند ہے مجھ کو یہ بول چال اے بحرؔ
قسم خدا کی یہ طرز بیاں بہت اچھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |