یہ کیا کہا کہ غم عشق ناگوار ہوا
Appearance
یہ کیا کہا کہ غم عشق ناگوار ہوا
مجھے تو جرعۂ تلخ اور سازگار ہوا
سرشک شوق کا وہ ایک قطرۂ ناچیز
اچھالنا تھا کہ اک بحر بے کنار ہوا
ادائے عشق کی تصویر کھنچ گئی پوری
وفور جوش سے یوں حسن بے قرار ہوا
بہت لطیف اشارے تھے چشم ساقی کے
نہ میں ہوا کبھی بے خود نہ ہشیار ہوا
لیے پھری نگہ شوق سارے عالم میں
بہت ہی جلوۂ حسن آج بے قرار ہوا
جہاں بھی میری نگاہوں سے ہو چلا معدوم
ارے بڑا غضب اے چشم سحر کار ہوا
مری نگاہوں نے جھک جھک کے کر دئیے سجدے
جہاں جہاں سے تقاضائے حسن یار ہوا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |