Jump to content

یہ گلہ دل سے تو ہرگز نہیں جانا صاحب

From Wikisource
یہ گلہ دل سے تو ہرگز نہیں جانا صاحب
by نظیر اکبر آبادی
315957یہ گلہ دل سے تو ہرگز نہیں جانا صاحبنظیر اکبر آبادی

یہ گلہ دل سے تو ہرگز نہیں جانا صاحب
سب نے جانا ہمیں پر تم نے نہ جانا صاحب

ان بیانوں سے غرض ہم نے یہ جانا صاحب
آپ کو خون ہمارا ہے بہانا صاحب

چھوڑ کر آپ کے کوچہ کو پھروں صحرا میں
سو تو مجنوں سا نہیں ہوں میں دوانا صاحب

یاد تھے ہم کو جوانی میں تو سو مکر و فریب
اک کرشمہ تھا تمہیں دام میں لانا صاحب

اب جو بوڑھے ہیں تو اب بھی ہمیں شیطان نظیرؔ
ہنس کے کہتا ہے اجی آئیے نانا صاحب


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.