Category:اردو ادب
اے غمِ دل کیا کروں جب ہم نوا کوئی نہ ہو
آسرا کوئی نہ ہو اور مدّعا کوئی نہ ہو
رات اُتری جارہی ہے خامشی کے پیڑ سے ہم پریشاں کیوں نہ ہوں جب اک دِیا کوئی نہ ہو
ان کی غیبت میں لبوں پہ داستاں ہی داستاں جب وہ آئیں سامنے تو ماجرا کوئی نہ ہو
رنگ و بو یہ روشنی لگتی نہیں ہم کو بھلی جب نگاہِ ناز ہم پہ سرمہ سا کوئی نہ ہو
منزلوں کو راستے ہم نے بنا ڈالا صبوح کیا کریں جب بعدِ منزل راستہ کوئی نہ ہو
دوسری غزل_ بہار آۓ تو کہنا کہ اشکبار آۓ کہ چشمِ نم کو کسی ڈھب تو کچھ قرار آۓ
کوۓ حبیب کی راہوں کو ہم نکھار آۓ کہ جیب و دل کی جو دھجیاں تھیں وار آۓ
نگارِ بندیٔ دوراں ہمیں کو کرنی ہے کہ جب بھی خلقتِ آدم کے سر بخار آۓ
الجھتے رہتے تھے بے وجہ جو زمانے سے ترے کہے پہ وہ گیسو بھی ہم سنوار آۓ
قفس میں ہم کو ملے گی کہاں حیات کی لَو
ترا خیال نہ گر بن کے غم گسار آۓ
کمالِ حسن سے وافر تھا اے جمال نواز تبھی تو تیری ہی چوکھٹ پہ بار بار آۓ
نظم اے دل
اے گُلِ چیدہ مرے، اے دلِ خندہ مرے واۓ ظلمت کی گھڑی ہے جھیل سی ہر آنکھ ہے چیختی ہر کوکھ ہے جسمِ آدم راکھ ہے اک قیامت کی گھڑی ہے محشرِ خاموش ہاں اک طلاطم ہے غموں کا اک مصیبت کا سماں ایک یہ دردِ جگر رہ رہ کے اٹھتا ہے یہاں کتنے نازک جان تھے وہ بوڑھے بچے جواں نذرِ آتش ہوگئے بارود کے ہونٹوں تلے کتنے ہی ارمان تھے جو جل بھُنے بم کے چلے کتنے ہی ظالم ہیں نومولود بچوں سے لڑے ہاۓ میری بے بسی ہاۓ میری کلفتی تاکجا غیرت نہ آۓ بازؤوں والوں کو اب تا کجا شرما نہ جائیں بے ضمیری کے محل خاک دے انسانیت میں تیری میّت پہ رکھوں کچھ سیاہی دے اے دنیا اپنے چہرے پہ ملوں
نظم( دعا) میری ہر ہر دعا تیری راحت بنے دہر تیرے لئے مثلِ جنت بنے تیرے عارض تبّسم سے مہکے رہیں تیرے گیسو محبت سے لہکے رہیں اپنی بانہوں کو شاخیں، خوشی کی سدا تیری بانہوں میں محبوب، ڈالے رہیں تیرا گلزارِ مُسکان قائم رہے تیرا چہرۂ خورسند دائم رہے ہر قدم پر صبا قدم چوم لے تیرے رخسار کو کرم چوم لے تیرے سر پر گھٹائیں ہوں عنبر فشاں
تیرے ہمرہ نوائیں ہوں آتش بجاں
تو جامِ بہاری سے پلتا رہے بادۂ زیست بھر بھر نگلتا رہے میرے محبوب تیری خوشی کیلئے شب میں تاروں کا پُر نور بستر بچھے چاند تیرا تجھے جامِ مخمور دے اور سَحَر تیرے گھر میں اجالے بھرے میرے محبوب تیری خوشی کیلئے میرے محبوب تیری ہنسی کیلئے ہر صدف موتیوں کی لڑی رول دے ہر کلی اپنی بندِ قبا کھول دے موجِ دریا بھی لعل و گہر ڈول دے اور گھنگھرو پہن کے یوں ناچے بہار جیسے لرزے کوئی پُرانی دیوار میرے محبوب تیری ہنسی کی قسم میرے دل کی تڑپ ، میرے غم کی قسم میرے جاناں ترے ہر شگوفے کو ہم وہ جو تلقیں کے ڈبے میں دیتے تھے تم جو نصیحت کے تھے ، جو ہدایت کے تھے وہ جو در بند رنگیں عنایت کے تھے میرے جاناں انہیں گُل بنائیں گے ہم یہ مزاجوں کے گیسو، رویّے کے سنبل
میرے جاناں انہیں بھی سنواریں گے ہم نجمِ خوبی سے ہر دم سجائیں گے ہم
میرے محسن بہت تیرے احساں رہے میرے جاناں انہیں کیا چکائیں گے ہم بارِ احساں یہ دل سے اٹھائیں گے ہم تیری یادیں بہت جب ستائیں گی جاں بزمِ عالم کو تب بھول جائیں گے ہم میرے محبوب ترے ہنسی کی قسم بزمِ دنیا میں شمعیں جلائیں گے ہم