آمد آمد حرمِ شاہ کی دربار میں ہے
آمد آمد حرمِ شاہ کی دربار میں ہے
صبح سے جشن کا غل شام کے بازار میں ہے
صحبتِ عیشِ طرب مجلس غدار میں ہے
شور و فریاد و بکا عترتِ اظہار میں ہے
نوبتیں بجتی ہیں دشمن تو خوشی ہوتے ہیں
فاطمہؔ پیٹتی ہیں، شیرِ خداروتے ہیں
آگے آگے تو ہیں سجادؔ جھکائے گردن
پاؤں بیڑی میں، گلا طوق میں گردن میں رسن
مثلِ خورشیدِ فلک شرم سے لرزاں ہے بدن
چاک ہے غم میں گریبانِ قبا تا دامن
بیٹھ جاتے ہیں تو جھنجھلا کے اٹھاتے ہیں لعیں
بوڑیاں نیزوں کی، شانوں میں چھپاتے ہیں لعیں
پنڈلیاں سوجی ہیں، اور طوق سے چھلتا ہے گلا
سخت ایذا میں ہے ، فرزند شۂ کرب و بلا
خار تلووں میں ہیں، مقتل سے جو پیدل ہے چلا
دھجیاں پاؤں میں باندھے ہے، وہ نازوں کا پلا
اس کی مظلومی پہ بیتاب حرم ہوتے ہیں
دیدۂ حلقۂ زنجیر لہو روتے ہیں
پیچھے بیمار کے ہے قافلۂ اہلِ حرم
چپ ہیں تصویر سے گویا کہ کسی میں نہیں دم
دخترِ فاطمہؔ زہرا کا عجب ہے عالم
تھرتھری جسم میں ہے اٹھ نہیں سکتے ہیں قدم
رو کے فرماتی ہیں کس گوشے میں جائے زینبؔ
ہاتھ کھل جائیں تو منہ اپنا چھپائے زینبؔ
کبھی سجادؔ سے کہتی ہیں، بہ آہ و زاری
مجھ کو دربار کی آفت سے بچاؤ داری
کر کے زاری وہ بیاں کرتا ہے وہ آزاری
صبر فرماؤ جو مرضیِٔ جنابِ باری
کم نہ کچھ مرتبۂ آلِ عبا ہوئے گا
عاصیوں کا اسی پردہ میں بھلا ہوئے گا
گردنیں بارہ اسیروں کی ہیں اور ایک رسن
جس طرح ہوتے ہیں گلدستے ہیں گلہائے چمن
رشتہ دارانِ علیؔ سب ہیں گرفتارِ محن
شرم کے مارے موئی جاتی ہے اک شب کی دلہن
دم بدم ساس بھی سر پیٹتی ہے ساتھ اس کے
ابھی کنگنا نہ کھلا تھا کہ بندھے ہاتھ اس کے
ہے اس رسی میں ننہا سا سکینہ کا گلو
دم گھٹا جاتا ہے آنکھوں سے رواں ہیں آنسو
چاک کرتے کا گریباں ہے، پریشاں گیسو
سوجے تو گال ہیں کانوں سے ٹپکتا ہے لہو
آہ ہر گام پہ سینے سے نکل جاتی ہے
جب گھرکتے ہیں ستمگر تو دہل جاتے ہے
ماں سے کرتی ہے اشارہ وہ گرفتارِ ستم
رسی کھلوا دو نہیں گھٹ کے نکل جائے گا دم
رو کے وہ کہتی ہے مجبور ہوں میں کشتۂ غم
ہائے بچی تری قسمت میں تھا یہ درد و الم
صدقے امّاں یہ گرہ عقد کشا کھولے گا
بی بی اس عقدۂ مشکل کو خدا کھولے گا
ماں سے رو رو کے وہ نادان یہ کرتی ہے بیاں
کس کا دربار ہے، اس حال سے جاتی ہو کہاں
یہ تو کہہ دو کہیں بابا بھی ملیں گے اماں
کئی دن گذرے ہیں وہ ہیں مری آنکھوں سے نہاں
بھول جائے گایہ سب دکھ جو انہیں پاؤں گی
دوڑ کر چاند سی چھاتی سے لپٹ جاؤں گی
کہیں دربار میں اماں وہ اگر مجھ کو ملے
دیکھنا کرتی ہوں کیسے شۂ والا سے گلے
وہ خبر لیویں نہ گردن مری رسی سے چلے
اس کو یوں بھولتے ہیں باپ سے بچہ جو پلے
وجہ کیا کون سی تفصیر پہ منہ موڑا ہے؟
سیلیاں کھانے کو اعدا میں مجھے چھوڑا ہے
کان زخمی ہوئے اور لی نہ خبر واہ رے پیار
خوب بھولے مجھے بابا کی محبت کے نثار
دن میں چھاتی سے لگاتے تھے مجھے سو سو بار
مجھ پہ یہ ظلم ہیں آیا انہیں کس طرح قرار
منہ دکھاتے نہیں شفقت سے بلانا کیسا
خواب میں آئے نہ چھاتی پہ سلانا کیا
روتے تھے سن کے سکینہؔ کا بیاں سارے امیر
ہر قدم پر تھا یہی شور کہ ہے ہے شبیر
اس طرف ہوتی تھی آرائشِ دربارِ شریر
تخت پر آپ تھا اور کرسیوں پر سارے امیر
اک طرف لوٹ کا سب زیور و زر رکھا تھا
اور تلے فاطمہ کے لعل کا سر رکھا تھا
نذریں ہاتھوں پہ لیے آتے تھے سب درباری
پڑھتے تھے تہنیت فتح کو باری باری
جمع دربار میں تھی، شہر کی خلفت ساری
یاں تو تھا جشن کا غل، اور ادھر تھی زاری
اس طرف تو دف و نے کی صدا آتی تھی
اور اس سمت سے ہے ہے کی صدا آتی تھی
دم بدم تخت سے اٹھ اٹھ کے یہ کہتا تھا شریر
قیدی کیوں جلد نہیں آتے ہیں کیا ہے تاخیر
بڑھ کے کرتے تھے خبردار یہ اُس دم تقریر
ضعف سے پاؤں کو تھم تھم کے اٹھاتے ہیں اسیر
مارے دہشت کے لہو ان کا گھٹا جاتا ہے
ہر قدم ایک ضعیفہ کو غش آجاتا ہے
بولا وہ کون سی عورت ہے وہ محبوسِ ستم
عرض کی اس نے کہ ہمشیرِ شہنشاہِ امم
باپ جس کا ہے علیؔ پشت و پناہِ عالم
جس کی ماں فاطمہؔ ہے فخر جناب مریم
ہے جو سلطانِ عرب اس کی نواسی ہے وہ
کلمہ گو جس کے ہیں سب اس کی نواسی ہے وہ
ہے وہی حضرتِ جعفرؔ کی بہو سینہ فگار
وہی زینبؔ ہے جو شبیرؔ کی تھی عاشقِ زار
لاش شہ پر، وہی اُشتر سے گری تھی کئی بار
بعد مرنے کے بھی ہے بھائی بہن میں وہی پیار
قافلہ یوں تو سبھی شام و سحر روتا ہے
پر وہ روتی ہے تو شبیر کا سر روتا ہے
بولا وہ کیا ہے پھر اوروں کے نہ آنے کا سبب
عرض کی ایک ہی رسی میں ہیں جکڑے ہوئے سب
خاک پہ گرتی ہے جب بنتِ شہنشاہِ عرب
شور ہوتا ہے اسیروں میں کہ ہے ہے زینبؔ
ہوش میں آن کے، بھائی کو وہ جب روتی ہے
دیر تک قیدیوں میں سینہ زنی ہوتی ہے
انہیں رانڈوں مین ہے اک دخترِ فرزند نبی
خوگرِ سینۂ دلبند، رسولِ عربی
آفتِ فاقہ کشی، بے پدری تشنہ لبی
دم بہ دم لب پہ یہ ہے این ابی این ابی
چھاتیاں پھٹتی ہیں اس درد سے وہ روتی ہے
شمرؔ جب آنکھ دکھاتا ہے تو چپ ہوتی ہے
ذکرِ یہ تھا کہ وہ قیدی سرِ دربار آئے
سب پکارے کہ وہ حاکم کے گنہگار آئے
آگے روتے ہوئے سجادِؔ دل افگار آئے
سر برہنہ حرم احمد مختار آئے
صاف خورشید سی شکلیں جو نظر آتی ہے
آنکھیں سب ظالموں کی بند ہوئی جاتی ہے
گو کہ اس روز تھیں سیدانیاں کھولے ہوئے بال
منہ چھپانے کو کسی پاس نہ تھا اک رومال
بیٹیوں کا اسد اللہ کی، اللہ رے جلال
آنکھ اٹھا کر کوئی دیکھے، یہ کسی کی تھی مجال
جلوۂ رشنیِ طور نظر آتا تھا
کچھ نہ آنکھوں کو بجز نور نظر آتا ہے
پردۂ چشم سے باہر نہ نکلتی تھی نظر
ایک سے پوچھتا تھا ایک کہ قیدی ہیں کدھر؟
بیٹیاں فاطمہؔ زہرا کی جو تھیں ننگے سر
دست حیدرؔ تھا تماشائیوں کی آنکھوں پر
تھا جو منظورِ خدا آلِ عبا کا پردہ
فاطمہؔ روکتی تھی، اپنی ردا کا پردہ
کہا ظالم نے کہ ہاں قیدیوں کو لاؤ قریب
حکم یہ سنتے ہی دوڑے گئے دو چار نقیب
شرم کے مارے ہوا، بیبیوں کا حال عجب
اپنا سر پیٹ کے بانو نے کہا وائے نصیب
کھینچ کر سب کو ستمگار جو لے جانے لگے
حضرتِ زینب و کلثوم کو غش آنے لگے
تخت کے سامنے روتے ہوئے آئے جو اسیر
دیکھ کر سیدِ سجادؔ کو بولا وہ شریر
سرکشی کر کے نہ سربر ہوئے مجھ سے شبپر
شکر کرتا ہوں کہ خالق نے کیا تم کو حقیر
بیٹھنے کا کہیں دنیا میں سہارا نہ رہا
پنجتن اٹھ گئے اب زور تمہارا نہ رہا
ہاں کہو آج حمایت کو پیمبر ہیں کہاں؟
کیا ہوئے ابنِ علیؔ حیدر صفدر ہیں کہاں؟
قید میں ان کی بہو آتی ہے شبّر ہیں کہاں؟
ننگے سر زینبِ دلگیر ہے سرور ہیں کہاں؟
ذبح خنجر سے ہوا جو وہ پدر کس کا ہے؟
اک ذرا غور سے دیکھو تو یہ سر کس کا ہے؟
کس کے ناموس لٹے کس کا ہوا گھر تاراج؟
کون بے سر ہوا، اور کون ہوا صاحبِ تاج؟
ایک چادر کے لیے کس کی بہن ہے محتاج؟
کون کمزور ہے، اور کون زبردست ہے آج؟
خلق میں کس کے لیے مرتبۂ عالی ہے؟
کس کا اقبال ہے، اور کس کی بد اقبالی ہے؟
نہر پر بازوئے شبیرؔ کو مارا کس نے؟
جنگ میں اکبرؔ دلگیر کو مارا کس نے؟
تیر سے اصغرِؔ بے شیر کو مارا کس نے؟
شاہ سے صاحبِ شمشیر کو مارا کس نے؟
فوج بے سر ہوئی سلطانِ حجازی نہ رہے
جن کی تلوار کا شہرہ تھا وہ غازی نہ رہے
سن کے یہ آگیا بنتِ شہ مرداں کو جلال
تھرتھرا کر کہا کیا بکتا ہے او بد اقبال
صاحبِ عزت و توقیر محمد کی ہے آل
کبھی ہم لوگوں کی عزت پہ نہ آئے گا زوال
ہم کو بے قدر جو سمجھا تو خطا کرتا ہے
دیکھ مصحف میں خدا کس کی ثنا کرتا ہے
ہاں بتا آیۂ تطہیر کسے آیا ہے؟
دوست اپنا کسے اللہ نے فرمایا ہے؟
ہل اتیٰ کس کے لیے روح امیں لایا ہے؟
کس نے معراج کا دنیا میں شرف پایا ہے؟
قرب ایسا کسے اللہ کی درگاہ میں ہے؟
فرقِ قوسین بتا کس میں اور اللہ میں ہے؟
زور اپنا کسے اللہ نے امداد کیا؟
خانۂ کفر کو کس شیر نے برباد کیا؟
حق نے قرآن کے سورۃ میں کسے یاد کیا؟
کس کو اکملت لکم دینکم ارشاد کیا؟
کس سے ہر جنگ میں عاجز صفِ کفار آئی؟
بدر میں کس کے لیے عرش سے تلوار آئی؟
آلِ احمد کو حقارت سے نہ دیکھ او مقہور
سب پہ روشن ہے کہ ہم لوگ ہیں اللہ کے نور
مار کر سبطِ پیمبر کو یہ نخوت یہ غرور
خیر ہم دور نہ تو دور نہ محشر ہے دور
حق کا دریائے غضب جوش میں جب آئے گا
باندھنا ہاتھ کا سادات کے کھل جائے گا
فخر کیونکر نہ کرے تو کہ یہ ہے فخر کی جا
تو نے اللہ کے محبوب کا کاٹا ہے گلا
ہو گئے سرخ لہو میں حسنِ سبز قبا
فاطمہؔ ذبح ہوئی، شیر خدا قتل ہوا
آگ دی خیمہ کو اور زیور و زر لوٹ لیا
جس کے درباں تھے ملک، تو نے وہ گھر لوٹ لیا
ترے ناموس تو ہیں پردہ نشیں او اظلم
بال بکھرائے کھڑے ہیں، ترے دربار میں ہم
ہائے بے پردہ ہے بانوئے امامِ عالم
ہے سکینہؔ پہ وہ ظلم اور یہ کبراؔ پہ ستم
ننگے سر قید میں اک رات کی بیاہی آئی
تجھ کو شادی ہوئی اور ہم پہ تباہی آئی
کیے زینبؔ نے فصاحت سے یہ جس وقت کلام
کانپے سینوں میں جگر رونے لگے لوگ تمام
تخت کے نیچے دھرا تھا جو سرِ پاکِ امام
متوجہ ہوا شرما کے ادھر حاکمِ شام
اور ان ظلم رسیدوں پہ جفا کرنے لگا
لبِ فرزند پیمبر پہ چھری دھرنے لگا
کھول کر چوب سے لب ہائے شہنشاہِ عرب
کہتا تھا پارۂ یاقوت سے بہتر ہیں لب
درِ دنداں ہیں یہ تاباں کہ خجل ہیں کوکب
پیٹ کر سینے کو زینبؔ نے کہا ہائے غضب
نہ محمدؔ سے نہ حیدرؔ سے حیا کرتا ہے
قطع ہو جائے ترا ہاتھ، یہ کیا کرتا ہے
اس چھڑی کو مرے بھائی کے لبوں سے سرکا
بوسے لیتے تھے انہیں ہونٹوں کے محبوب خدا
بہر امت انہیں ہونٹوں سے دعا کی ہے سدا
انہیں دانتوں پہ گہر کرتی تھی صدقے زہراؔ
تجھ کو پیارے نہیں گو، ہم کو تو پیارے ہیں یہ
عرش تک جن کا ہے شہرہ وہ ستارے ہیں یہ
یہ ستم بھائی پہ کن آنکھوں سے دیکھے ہمشیر
ارے ظالم سرِ بے تن کی بھلا کیا تفصیر
یہ چھڑی ہائے غضب اور لبِ پاک شبیرؔ
نہ ستا مجھ کو میں ہوں بنتِ شۂ خیبر گیر
ان کھلے بالوں کو اب ہاتھوں پہ دھرتی ہوں میں
لے شکایت تری اللہ سے کرتی ہوں میں
کہہ کے یہ غیظ میں آئی جو علیؔ کی جائی
آسماں آ گئے جنبش میں زمیں تھرائی
سر شبیر سے ناگاہ صدا یہ آئی
تھام لے غصے کو زینبؔ ترے صدقے بھائی
نہ تلاطم میں کہیں قہر الٰہی آ جائے
کہیں امت کی نہ کشتی پہ تباہی آ جائے
تم تو آگاہ ہو، شبیر نے جو دکھ پائے
پر نہیں حرف شکایت کے ، زباں پر لائے
سر کو نیوڑا لیا جب ذبح کو قاتل آئے
ہم نے امت کے لیے چھاتی پہ نیزے کھائے
اتنی سی بات پہ مصروفِ بکا ہوتی ہو
تم چھڑی ہونٹوں پہ رکھنے سے خفا ہوتی ہو
برچھیاں کھانے سے کیا اس میں کچھ ایذا ہے پڑی
چپ رہے تن پہ جو تلوار یہ تلوار پڑی
جانے دو رکھی تو رکھی مرے ہونٹوں پہ چھڑی
اے بہن یہ بھی گذر جائے گی آفت کی گھڑی
چپ ہیں جو ہم پہ ستم راہِ خدا میں ہوگا
اس کا انصاف تو دربارِ خدا میں ہوگا
سرِ شبیر نے زینبؔ سے جو یہ کی تقریر
آ کے غصے میں لگا کانپنے وہ حاکم بے پیر
شمرؔ سے بولا کہ بس اس کی یہی ہے تعزیر
سب کو لے جا کے تو کر سخت خرابے میں اسیر
بس انیسؔ اب جگر و قلب پھنکا جاتا ہے
حال زنداں کا نہیں منہ سے کہاجاتا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |