Author:میر انیس
Appearance
میر انیس (1803 - 1874) |
اردو شاعر |
تصانیف
[edit]غزل
[edit]- سنبلِ تر ہے پریشاں زلفِ اکبر دیکھ کر
- شہید عشق ہوئے قیس نامور کی طرح
- اشارے کیا نگۂ ناز دل ربا کے چلے
- وجد ہو بلبل تصویر کو جس کی بو سے
- کوئی انیسؔ کوئی آشنا نہیں رکھتے
- خود نوید زندگی لائی قضا میرے لیے
- ابتدا سے ہم ضعیف و ناتواں پیدا ہوئے
- سدا ہے فکر ترقی بلند بینوں کو
- نمود و بود کو عاقل حباب سمجھے ہیں
- مرا راز دل آشکارا نہیں
رباعی
[edit]- ظاہر وہی الفت کے اثر ہیں اب تک
- عریاں سر خاتون زمن ہے اب تک
- الفت ہو جسے اسے ولی کہتے ہیں
- ٹھوکر بھی نہ ماریں گے اگر خود سر ہے
- تھے زیست سے اپنی ہاتھ دھوئے سجاد
- سوز غم دوری نے جلا رکھا ہے
- شبیر کا غم یہ جس کے دل پر ہوگا
- سر کھینچ نہ شمشیر کشیدہ کی طرح
- رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے
- راہی طرف عالم بالا ہوں میں
- قطرے ہیں یہ سب جس کے وہ دریا ہے علی
- پتلی کی طرح نظر سے مستور ہے تو
- مے خانۂ کوثر کا شرابی ہوں میں
- لا ریب بہشتیوں کا مرجع ہے یہ
- کیوں کر دل غمزدہ نہ فریاد کرے
- کیا دست مژہ کو ہاتھ آئی تسبیح
- کچھ ملک عدم میں رنج کا نام نہ تھا
- کس طرح کرے نہ ایک عالم افسوس
- کھو دل کے مرض کو اے طبیب امت
- کھینچے مجھے موت زندگانی کی طرف
- جو مرتبہ احمد کے وصی کا دیکھا
- جو چشم غم شہ میں سدا روتی ہے
- جس پر کہ نظر لطف کی شبیر کریں
- اتنا نہ غرور کر کہ مرنا ہے تجھے
- عصیاں سے ہوں شرمسار توبہ یارب
- ہشیار ہے سب سے با خبر ہے جب تک
- ہو جاتی ہے سہل پیش دانا مشکل
- ہر چند کہ خستہ و حزیں ہے آواز
- ہر غنچے سے شاخ گل ہے کیوں نذر بکف
- گلزار جہاں سے باغ جنت میں گئے
- گلشن میں صبا کو جستجو تیری ہے
- گلشن میں پھروں کہ سیر صحرا دیکھوں
- غفلت میں نہ کھو عمر کہ پچھتائے گا
- فرصت کوئی ساعت نہ زمانے سے ملی
- دشمن کو بھی دے خدا نہ اولاد کا داغ
- دنیا بھی عجب سرائے فانی دیکھی
- دکھ میں ہر شب کراہتا ہوں یارب
- دل نے غم بے حساب کیا کیا دیکھا
- داماد رسول کی شہادت ہے آج
- بست و یکم ماہ محرم ہے آج
- بے جا نہیں مدح شہ میں غرا میرا
- بے گور و کفن باپ کا لاشہ دیکھا
- بے دینوں کو مرتضیٰ نے ایماں بخشا
- برہم ہے جہاں عجب تلاطم ہے آج
- بالوں پہ غبار شیب ظاہر ہے اب
- بادل آ کے رو گئے ہائے غضب
- اشکوں میں نہاؤ تو جگر ٹھنڈے ہوں
- اصحاب نے پوچھا جو نبی کو دیکھا
- انجام پہ اپنے آہ و زاری کر تو
- انداز سخن تم جو ہمارے سمجھو
- اللہ اللہ عز و جاہ ذاکر
- اختر سے بھی آبرو میں بہتر ہے یہ اشک
- اکبر نے جو گھر موت کا آباد کیا
- اے شاہ کے غم میں جان کھونے والو
- اے مومنو فاطمہ کا پیارا شبیر
- اے خالق ذوالفضل و کرم رحمت کر
- اے بخت رسا سوئے نجف راہی کر
- احباب سے امید ہے بیجا مجھ کو
- افزوں ہیں بیاں سے معجزات حیدر
- افضل کوئی مرتضیٰ سے ہمت میں نہیں
- اب زیر قدم لحد کا باب آ پہنچا
- اب وقت سرور و فرحت اندوزی ہے
- اب خواب سے چونک وقت بیداری ہے
- اب ہند کی ظلمت سے نکلتا ہوں میں
- اب گرم خبر موت کے آنے کی ہے
- آنکھ ابر بہاری سے لڑی رہتی ہے
- اعلیٰ رتبے میں ہر بشر سے پایا
- آدم کو یہ تحفہ یہ ہدیہ نہ ملا
- آدم کو عجب خدا نے رتبہ بخشا
مرثیہ
[edit]- یارب چمنِ نظم کو گلزارِ اِرم کر
- نمک خوان تکلم ہے، فصاحت میری
- کیا غازیانِ فوجِ خدا نام کر گئے
- جب زلف کو کھولے ہوئے لیلائے شب آئی
- جب رن میں سر بلند علی کا علم ہوا
- جب قطع کی مسافتِ شب آفتاب نے
- فرزند پیمبر کا مدینے سے سفر ہے
- دشت وغا میں نور خدا کا ظہور ہے
- بخدا فارسِ میدانِ تہور تھا حُرؔ
- آمد آمد حرمِ شاہ کی دربار میں ہے
- آج شبیرؔ پہ کیا عالمِ تنہائی ہے
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |