خود نوید زندگی لائی قضا میرے لیے
Appearance
خود نوید زندگی لائی قضا میرے لیے
شمع کشتہ ہوں فنا میں ہے بقا میرے لیے
زندگی میں تو نہ اک دم خوش کیا ہنس بول کر
آج کیوں روتے ہیں میرے آشنا میرے لیے
کنج عزلت میں مثال آسیا ہوں گوشہ گیر
رزق پہنچاتا ہے گھر بیٹھے خدا میرے لیے
تو سراپا اجر اے زاہد میں سرتاپا گناہ
باغ جنت تیری خاطر کربلا میرے لیے
نام روشن کر کے کیونکر بجھ نہ جاتا مثل شمع
نا موافق تھی زمانہ کی ہوا میرے لیے
ہر نفس آئینۂ دل سے یہ آتی ہے صدا
خاک تو ہو جا تو حاصل ہو جلا میرے لیے
خاک سے ہے خاک کو الفت تڑپتا ہوں انیسؔ
کربلا کے واسطے میں کربلا میرے لیے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |