شہید عشق ہوئے قیس نامور کی طرح
Appearance
شہید عشق ہوئے قیس نامور کی طرح
جہاں میں عیب بھی ہم نے کیے ہنر کی طرح
کچھ آج شام سے چہرہ ہے فق سحر کی طرح
ڈھلا ہی جاتا ہوں فرقت میں دوپہر کی طرح
سیاہ بختوں کو یوں باغ سے نکال اے چرخ
کہ چار پھول تو دامن میں ہوں سپر کی طرح
تمام خلق ہے خواہان آبرو اے رب
چھپا مجھے صدف قبر میں گہر کی طرح
تجھی کو دیکھوں گا جب تک ہیں برقرار آنکھیں
مری نظر نہ پھرے گی تری نظر کی طرح
ہماری قبر پہ کیا احتیاج عنبر و عود
سلگ رہا ہے ہر اک استخواں اگر کی طرح
نحیف و زار ہیں کیا زور باغباں سے چلے
جہاں بٹھا دیا بس رہ گئے شجر کی طرح
تمہارے حلقہ بہ گوشوں میں ایک ہم بھی ہیں
پڑا رہے یہ سخن کان میں گہر کی طرح
انیسؔ یوں ہوا حال جوانی و پیری
بڑھے تھے نخل کی صورت گرے ثمر کی طرح
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |