سدا ہے فکر ترقی بلند بینوں کو
سدا ہے فکر ترقی بلند بینوں کو
ہم آسمان سے لائے ہیں ان زمینوں کو
پڑھیں درود نہ کیوں دیکھ کر حسینوں کو
خیال صنعت صانع ہے پاک بینوں کو
کمال فقر بھی شایاں ہے پاک بینوں کو
یہ خاک تخت ہے ہم بوریا نشینوں کو
لحد میں سوئے ہیں چھوڑا ہے شہ نشینوں کو
قضا کہاں سے کہاں لے گئی مکینوں کو
یہ جھریاں نہیں ہاتھوں پہ ضعف پیری نے
چنا ہے جامۂ اصلی کی آستینوں کو
لگا رہا ہوں مضامین نو کے پھر انبار
خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو
بھلا تردد بے جا سے ان میں کیا حاصل
اٹھا چکے ہیں زمیندار جن زمینوں کو
انہیں کو آج نہیں بیٹھنے کی جا ملتی
معاف کرتے تھے جو لوگ کل زمینوں کو
یہ زائروں کو ملیں سرفرازیاں ورنہ
کہاں نصیب کہ چومیں ملک جبینوں کو
سجایا ہم نے مضامیں کے تازہ پھولوں سے
بسا دیا ہے ان اجڑی ہوئی زمینوں کو
لحد بھی دیکھیے ان میں نصیب ہو کہ نہ ہو
کہ خاک چھان کے پایا ہے جن زمینوں کو
زوال طاقت و موئے سپید و ضعف بصر
انہیں سے پائے بشر موت کے قرینوں کو
نہیں خبر انہیں مٹی میں اپنے ملنے کی
زمیں میں گاڑ کے بیٹھے ہیں جو دفینوں کو
خبر نہیں انہیں کیا بندوبست پختہ کی
جو غصب کرنے لگے غیر کی زمینوں کو
جہاں سے اٹھ گئے جو لوگ پھر نہیں ملتے
کہاں سے ڈھونڈ کے اب لائیں ہم نشینوں کو
نظر میں پھرتی ہے وہ تیرگی و تنہائی
لحد کی خاک ہے سرمہ مآل بینوں کو
خیال خاطر احباب چاہیئے ہر دم
انیسؔ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |