اشارے کیا نگۂ ناز دل ربا کے چلے
Appearance
اشارے کیا نگۂ ناز دل ربا کے چلے
ستم کے تیر چلے نیمچے قضا کے چلے
پکارے کہتی تھی حسرت سے نعش عاشق کی
صنم کدھر کو ہمیں خاک میں ملا کے چلے
مثال ماہیٔ بے آب موجیں تڑپا کیں
حباب پھوٹ کے روئے جو تم نہا کے چلے
مقام یوں ہوا اس کارگاہ دنیا میں
کہ جیسے دن کو مسافر سرا میں آ کے چلے
کسی کا دل نہ کیا ہم نے پائمال کبھی
چلے جو راہ تو چیونٹی کو بھی بچا کے چلے
ملا جنہیں انہیں افتادگی سے اوج ملا
انہیں نے کھائی ہے ٹھوکر جو سر اٹھا کے چلے
انیسؔ دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |