آیا ہے خیال بے وفائی
Appearance
آیا ہے خیال بے وفائی
کیوں جی وہی گفتگو پھر آئی
او بت نہ سنے گا کوئی میری
کیا تیری ہی ہو گئی خدائی
روکو روکو زبان روکو
دینے نہ لگو کہیں دہائی
صحرا میں ہوئی گہر فشانی
کام آئی مری برہنہ پائی
چاہا لیکن نہ بچ سکے ہم
آخر تیغ نگاہ کھائی
توڑا کانٹوں نے آبلوں کو
برباد ہوئی مری کمائی
بوسہ ہم آج مانگتے ہیں
کرتے ہیں قسمت آزمائی
توبہ شکنی شباب میں کر
کب تک اے جان پارسائی
کاٹا دن تو تڑپ تڑپ کر
آفت کی رات سر پر آئی
رخصت ہے نسیمؔ جلد دیکھو
کر لو گر ہو سکے بھلائی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |