Author:نسیم دہلوی
Appearance
نسیم دہلوی (1800 - 1866) |
اردو شاعر |
تصانیف
[edit]غزل
[edit]- دل کسی مشتاق کا ٹھنڈا کیا
- دیتے ہو بوسہ تو کہیں لاؤ بھی
- الفاظ و معانی کی کروٹ جو بدلتے ہیں
- اشک آنکھوں میں ڈر سے لا نہ سکے
- ہاتھوں میں آج کی شب مہندی لگایئے گا
- آباد غم و درد سے ویرانہ ہے اس کا
- نکل آیا وہ گھبرا کر دل اس کا اس قدر دھڑکا
- مرگ اغیار لب پہ لا نہ سکا
- گشت نہ کر ادھر ادھر بے خبری جہاں میں ہے
- نئے ڈھب کا کچھ جوش سودا ہوا ہے
- اب آئے ہو صدا سن کر گجر کی
- شکوا ہے نہ غصہ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
- ملنے کے نہیں نشاں ہمارے
- ناصح مشفق یہ مشق تازہ فرمانے لگے
- لڑکپن میں یہ ضد ہے جانی تمہاری
- کبھی ہوتا ہوں ظاہر جلوۂ حسن نکو ہو کر
- منظور ہے ناپنا کمر کا
- اب وہ گلی جائے خطر ہو گئی
- آیا ہے خیال بے وفائی
- بگڑے وہ لاکھ طرح مگر گل نہ ہو سکا
- برہم ہیں وہ غیر بے حیا سے
- شکایت کے عوض ہم شکر کرتے ہیں صنم تیرے
- کسی صورت تو دل کو شاد کرنا
- ہے کہے دیتے ہیں زحمت خوردہ ہے
- دیکھی دل دے کے قدر دانی
- دل کے آتے ہی یہ نقشہ ہو گیا
- دیکھ او قاتل بسر کرتے ہیں کس مشکل سے ہم
- فصل گل آئی ہے کل اور ہی ساماں ہوں گے
- کھلی ہے آنکھ جوش انتظار یار جانی ہے
- بہ لب چوسے ہوئے کیوں کر نہیں ہیں
- بھولوں تمہیں وہ بشر نہیں ہوں
- گلی میں بخت کے ان کا بھی کچھ قصہ نکل آیا
- سفر ہے دشوار خواب کب تک بہت پڑی منزل عدم ہے
- مری جان رنج گھٹائیے قدم آگے اب نہ بڑھائیے
- وصل کی رات ہے آخر کبھی عریاں ہوں گے
- لو ضعف سے اب یہ حال تن ہے
- پیتے ہیں مے گناہ بہ قصد ثواب ہے
- کب اس زمیں پہ مجھے آرمیدہ ہونا تھا
- باہم بلند و پست ہیں کیف شراب کے
- پھر اس کے پھندے میں جا رہے ہیں کہ جس کے پھندے میں جا چکے تھے
- حقیقت سے زباں آگاہ کر لے
- رشک عدو میں دیکھو جاں تک گنوا ہی دیں گے
- ہوس یہ رہ گئی دل میں کہ مدعا نہ ملا
- شکایت سے غرض کیا مدعا کیا
- زرگر و حداد خوش ہوں وہ کریں تدبیر ہم
- کیے سجدے ہوئے کافر نہ کچھ دل میں ذرا سمجھے
- یہ وہ نالے ہیں جو لب تک آئیں گے
- سن لے یہ التماس مرا دوستانہ ہے
- ماتم بہت رہا مجھے اشک چکیدہ کا
- کہتے ہیں سن کے تذکرے مجھ غم رسیدہ کے
- قربان ہو رہی ہے مری جاں ادھر ادھر
- غنچے نے تاج گل نے کیا پیرہن درست
- پاک ہے لذت عشرت سے زبان واعظ
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |