کب اس زمیں پہ مجھے آرمیدہ ہونا تھا
Appearance
کب اس زمیں پہ مجھے آرمیدہ ہونا تھا
ہوا سے خاک کو برسوں پریدہ ہونا تھا
اگر تھی دامن جاناں کی آرزو اے دل
تو چند دم کے لیے آب دیدہ ہونا تھا
کسی کے چہرہ پہ ہوتا کسی کے دامن میں
مجھے بھی آنکھ کا اشک چکیدہ ہونا تھا
کبھی نہ خدمت دامن سے سرفراز ہوا
وہ ہاتھ ہوں کہ جسے نا رسیدہ ہونا تھا
کمال بے ادبی سے یہ عرض کرتے ہیں
ہمیں سے اے قد جاناں کشیدہ ہونا تھا
اگر تھی لذت پامال کی ہوس اے دل
بہ شکل سبزہ زمیں پر دمیدہ ہونا تھا
عجب نہ تھا کہ اسے رحم کچھ نہ کچھ آتا
میری امید تجھے ابر دیدہ ہونا تھا
کمال ربط میں ہوتی ہیں سیکڑوں باتیں
نہ اس قدر تمہیں ہم سے کشیدہ ہونا تھا
ترا جمال بنا میں کبھی، کبھی احساں
غرض یہ تھی کہ مجھے برگزیدہ ہونا تھا
کھلی اب آنکھ تو کیا فائدہ نسیمؔ افسوس
نہ سمجھے زیر لحد آرمیدہ ہونا تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |