مری جان رنج گھٹائیے قدم آگے اب نہ بڑھائیے
مری جان رنج گھٹائیے قدم آگے اب نہ بڑھائیے
ادھر آئیے ادھر آئیے ادھر آئیے ادھر آئیے
کھڑے کب سے ہم سر راہ ہیں کہیں مر چکیں کہ تباہ ہیں
ہدف خدنگ نگاہ ہیں ذرا آنکھ ادھر بھی ملائیے
بھلا آنا آپ کا کام ہے یہ غلط تمام کلام ہے
اجی بس ہمارا سلام ہے کہیں اور باتیں بنائیے
تہ تیغ تیز ہے اک جہاں کوئی کشتہ ہے کوئی نیم جاں
جو نہ ہو دریغ تو مہرباں کوئی ہاتھ ادھر بھی لگائیے
کبھی مے سے منہ کو نہ موڑیئے ہوس شراب نہ چھوڑیئے
سر محتسب ہے نہ توڑیئے جو کمال گیت پر آئیے
یہ کمال لطف ہے ساقیا یہی ہے ہوس یہی مدعا
رہے ہوش سر نہ خیال پا اگر ایسی مے ہے تو لائیے
جو وفور چشم پر آب ہو تو جہان تختۂ آب ہو
ابھی نوح کا سا عذاب ہو اگر اشک چند بہائیے
وہ کہا عدو سے ہے میں نے کیا کہ ہوئے ہیں آپ جو یوں خفا
یہ غضب یہ جھوٹ یہ افترا مرے سامنے تو بلائیے
غزل ایسی کامل وزن سن متفاعلن متفاعلن
ہے نسیمؔ طاقت ہوش سن کوئی شعر اور سنائیے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |