باہم بلند و پست ہیں کیف شراب کے
باہم بلند و پست ہیں کیف شراب کے
آنکھوں میں ہیں طلوع و غروب آفتاب کے
پیتے ہیں سرخ و زرد پیالے شراب کے
کیا کیا ہیں اوج و پست میں رنگ آفتاب کے
برسوں سے ڈھونڈھتا ہے مضامیں شراب کے
گردوں الٹ رہا ہے ورق آفتاب کے
ساقی انڈیل جام صبوحی سبو کی خیر
مشتاق کب سے ہیں لب شب آفتاب کے
اٹھے وہ دود دل کہ فلک ہو گیا سیاہ
گل ہو گئے چراغ مہ و آفتاب کے
لکھوں جو ان کے چہرۂ روشن کا وصف میں
پیدا کروں زبان و دہن آفتاب کے
دھو دے شراب سے مرے انگور زخم کو
تا جلوے بخشیں زخم کہن آفتاب کے
کھو دے گا دود آہ فلک کی برہنگی
ڈالے گی شام منہ پہ نقاب آفتاب کے
خالی کہاں فلک ستم روزگار سے
رکھتا ہے دل پہ داغ مہ و آفتاب کے
جانے تو دو فلک پہ مرے نالۂ جنوں
پرزے اڑائیں گے ورق آفتاب کے
اے چرخ پیر دیکھ لیں اٹھکھیلیاں تری
یاد آ گئے ہمیں بھی زمانے شباب کے
پائی ہے میں نے زخم سے تعلیم خامشی
گویا لب سکوت دہن ہیں جواب کے
محروم آرزو ہیں صدائے شکست میں
رہ رہ گئے ہیں بھر کے پھپھولے حباب کے
کس اعتبار میں نفس چند اے نسیمؔ
شب ہر کے واسطے یہ تماشے ہیں خواب کے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |