کھلی ہے آنکھ جوش انتظار یار جانی ہے
کھلی ہے آنکھ جوش انتظار یار جانی ہے
بہ مشکل دیدۂ زنجیر خواب پاسبانی ہے
لبوں پر آ چکا دم کوئی دم کی زندگانی ہے
چل اٹھ او بے وفا پہلو سے اب کیوں مہربانی ہے
لگا دوں آگ اف کرنے میں وہ شعلہ زبانی ہے
بہ شکل شمع سارے جسم میں سوز نہانی ہے
کلام حضرت واعظ نصیب دشمناں باشد
انڈیلو مے پیو ساغر کہاں پھر نوجوانی ہے
امنگیں ہیں طبیعت میں بھری ہیں مستیاں دل میں
ہوئی جاتی ہیں آنکھیں بند کیف نوجوانی ہے
عذاب غفلت قاتل سے رنج کش مکش میں ہوں
مدد اے مرگ بے تقصیر ذوق جاں فشانی ہے
خبر کیا پوچھتا ہے ہم نفس کیوں کر گزرتی ہے
جگر جلتا ہے دل بھنتا ہے اشکوں کی روانی ہے
ادا و ناز ایما چشم غمزہ گو وہ کوئی ہو
تعلق جس سے ہو جائے بلائے ناگہانی ہے
پسند آئی ہے اس درجہ اذیت دوستی ہم کو
نظر میں دھوپ بھی دشت مصیبت کے سہانی ہے
خیال میرزائی اے نسیمؔ دہلوی کب تک
جھکو بڈھے ہوئے اب رخصت لطف جوانی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |