گشت نہ کر ادھر ادھر بے خبری جہاں میں ہے
Appearance
گشت نہ کر ادھر ادھر بے خبری جہاں میں ہے
اپنے ہی دل میں غور کر دیکھ مکیں مکاں میں ہے
رات تمام کھو چکا نیند سے سیر ہو چکا
جاگ کہ خوب سو چکا کوس اجل فغاں میں ہے
کس سے مثال تجھ کو دوں غیر کہاں جو نام لوں
حال کہوں تو کیا کہوں قفل ادب زباں میں ہے
پاؤں بہت تھکا چکا شام کا قرب آ چکا
دوڑ کہ وقت جا چکا تو پس کارواں میں ہے
دیکھ کہیں دغا نہ ہو جسم سے جاں جدا نہ ہو
جلد سنبھل خطا نہ ہو تیر اجل کماں میں ہے
منزل گور تنگ ہے پائے فراغ لنگ ہے
تجھ کو ابھی امنگ ہے اور ہی کچھ گماں میں ہے
تجھ کو نسیمؔ کیا ہوا دید جہاں سے دل اٹھا
رنگ فریب جا بہ جا ہر گل بوستاں میں ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |