کہتے ہیں سن کے تذکرے مجھ غم رسیدہ کے
کہتے ہیں سن کے تذکرے مجھ غم رسیدہ کے
افسانے کون سنتا ہے حال شنیدہ کے
کیا اپنی مشت خاک کی ہم جستجو کریں
ملتے نہیں نشان غبار پریدہ کے
میں خاک بھی ہوا نہ گئی پر کشیدگی
غصے وہی رہے مرے دامن کشیدہ کے
جو تم میں بات ہے وہ کسی اور میں کہاں
جلوے کچھ اور ہی ہیں گل نو دمیدہ کے
سیلاب چشم تر سے زمانہ خراب ہے
شکوے کہاں کہاں ہیں مرے آب دیدہ کے
کچھ انتہا نہیں ہے کہاں تک سنائیے
قصے دراز ہیں دل نا آرمیدہ کے
قطرے ملے جو تیرے پسینے کے گل بدن
خواہاں رہے نہ لوگ گلاب چکیدہ کے
آہوں کی دھوم ہے کہیں نالوں کے گلگلے
ساماں نئے ہیں روز ترے غم کشیدہ کے
آرام گاہ اشک ہے ویران اے جنوں
دامن ہیں تار تار قبائے دریدہ کے
او مست ناز کیف یہ تیرے سخن میں ہے
دھوکے کلام پر ہیں شراب چکیدہ کے
لو آشیان تن کی طرف میل تک نہیں
دیکھو مزاج طائر رنگ پریدہ کے
دیواں میں وصف ہے عرق جسم یار کا
مضموں کہاں کہاں ہیں گلاب چکیدہ کے
مژگاں سے بچ نسیمؔ کہ ابرو کے پاس ہیں
یہ تیر بے خطا ہیں کمان کشیدہ کے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |