آیا ہے صبح نیند سوں اٹھ رسمسا ہوا
Appearance
آیا ہے صبح نیند سوں اٹھ رسمسا ہوا
جامہ گلے میں رات کے پھولوں بسا ہوا
کم مت گنو یہ بخت سیاہوں کا رنگ زرد
سونا وہی جو ہووے کسوٹی کسا ہوا
انداز سیں زیادہ نپٹ ناز خوش نہیں
جو خال حد سے زیادہ بڑھا سو مسا ہوا
قامت کا سب جگت منیں بالا ہوا ہے نام
قد اس قدر بلند تمہارا رسا ہوا
زاہد کے قد خم کوں مصور نے جب لکھا
تب کلک ہاتھ بیچ جو تھا سو عصا ہوا
دل یوں ڈرے ہے زلف کا مارا وہ پھونک سیں
رسی سیں اژدہے کا ڈرے جوں ڈسا ہوا
اے آبروؔ اول سیں سمجھ پیچ عشق کا
پھر زلف سیں نکل نہ سکے دل پھنسا ہوا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |