Author:شاہ مبارک آبرو
Appearance
شاہ مبارک آبرو (1683 - 1733) |
اردو شاعر |
تصانیف
[edit]غزل
[edit]- زندگانی سراب کی سی طرح
- یہ تری دشنام کے پیچھے ہنسی گل زار سی
- یہ سبزہ اور یہ آب رواں اور ابر یہ گہرا
- یہ باؤ کیا پھری کہ تری لٹ پلٹ گئی
- یار روٹھا ہے ہم سیں منتا نہیں
- یاد خدا کر بندے یوں ناحق عمر کوں کھونا کیا
- یا سجن ترک ملاقات کرو
- اس زلف جاں کوں صنم کی بلا کہو
- تمہاری جب سیں آئی ہیں سجن دکھنے کو لال انکھیاں
- تمہارے لوگ کہتے ہیں کمر ہے
- طوفاں ہے شیخ قہریا ہے
- تیرہ رنگوں کے ہوا حق میں یہ تپ کرنا دوا
- شوق بڑھتا ہے مرے دل کا دل افگاروں کے بیچ
- شب سیاہ ہوا روز اے سجن تجھ بن
- سرسوں لگا کے پاؤں تلک دل ہوا ہوں میں
- سانپ سر مار اگر جو جاوے مر
- سیر بہار حسن ہی انکھیوں کا کام جان
- رتا ہے ابرواں پر ہاتھ اکثر لاوبالی کا
- رکھے کوئی اس طرح کے لالچی کو کب تلک بہلا
- قیامت راگ ظالم بھاؤ کافر گت ہے اے پنّا
- پلنگ کوں چھوڑ خالی گود سیں جب اٹھ گیا میتا
- نپٹ یہ ماجرا یارو کڑا ہے
- نگہ تیری کا اک زخمی نہ تنہا دل ہمارا ہے
- نازنیں جب خرام کرتے ہیں
- نالاں ہوا ہے جل کر سینے میں من ہمارا
- نہیں گھر میں فلک کے دل کشائی
- نہ پاوے چال تیرے کی پیارے یہ ڈھلک دریا
- محبت سحر ہے یارو اگر حاصل ہو یک روئی
- مت مہر سیتی ہاتھ میں لے دل ہمارے کوں
- مت غضب کر چھوڑ دے غصہ سجن
- مگر تم سیں ہوا ہے آشنا دل
- کیوں ملامت اس قدر کرتے ہو بے حاصل ہے یہ
- کیوں بند سب کھلے ہیں کیوں چیر اٹپٹا ہے
- کیا شوخ اچپلے ہیں تیرے نین ممولا
- کیا بری طرح بھوں مٹکتی ہے
- کوئل نیں آ کے کوک سنائی بسنت رت
- کس کی رکھتی ہیں یہ مجال انکھیاں
- خورشید رو کے آگے ہو نور کا سوالی
- خدا کے واسطے اے یار ہم سیں آ مل جا
- کنھیا کی طرح پیارے تری انکھیاں یہ سانوریاں
- کماں ہوا ہے قد ابرو کے گوشہ گیروں کا
- کہو تم کس سبب روٹھے ہو پیارے بے گنہ ہم سیں
- کہیں کیا تم سوں بے درد لوگو کسی سے جی کا مرم نہ پایا
- جلتے تھے تم کوں دیکھ کے غیر انجمن میں ہم
- جلتے ہیں اور ہم سیں جب مانگتے ہو پیالہ
- جال میں جس کے شوق آئی ہے
- عشق ہے اختیار کا دشمن
- اس زلف جاں گزا کوں صنم کی بلا کہو
- انسان ہے تو کبر سیں کہتا ہے کیوں انا
- حسن پر ہے خوب رویاں میں وفا کی خو نہیں
- ہم نیں سجن سنا ہے اس شوخ کے دہاں ہے
- ہوا ہوں دل سیتی بندا پیا کی مہربانی کا
- ہمارے سانولے کوں دیکھ کر جی میں جلی جامن
- ہے ہمن کا شام کوئی لے جا
- گناہ گاروں کی عذر خواہی ہمارے صاحب قبول کیجے
- گرچہ اس بنیاد ہستی کے عناصر چار ہیں
- گلی اکیلی ہے پیارے اندھیری راتیں ہیں
- فجر اٹھ خواب سیں گلشن میں جب تم نے ملی انکھیاں
- دشمن جاں ہے تشنۂ خوں ہے
- دلی کے بیچ ہائے اکیلے مریں گے ہم
- دل نیں پکڑی ہے یار کی صورت
- دل ہے ترے پیار کرنے کوں
- دیکھو تو جان تم کوں مناتے ہیں کب سیتی
- دیکھ تو بے رحم عاشق نیں تجھے چھوڑا نہیں
- چنچلاہٹ میں تو ممولا ہے
- بہار آئی گلی کی طرح دل کھول
- بڑھے ہے دن بدن تجھ مکھ کی تاب آہستہ آہستہ
- اور واعظ کے ساتھ مل لے شیخ
- اگر دل عشق سیں غافل رہا ہے
- اگر انکھیوں سیں انکھیوں کو ملاؤ گے تو کیا ہوگا
- آیا ہے صبح نیند سوں اٹھ رسمسا ہوا
- آشنائی بزور نہیں ہوتی
- عاشق بپت کے مارے روتے ہوئے جدھر جاں
- آج یاروں کو مبارک ہو کہ صبح عید ہے
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |