تمہاری جب سیں آئی ہیں سجن دکھنے کو لال انکھیاں
تمہاری جب سیں آئی ہیں سجن دکھنے کو لال انکھیاں
ہوئی ہیں تب سیں دونی خوش نما صاحب جمال انکھیاں
قیامت آن ہے اس وقت میں ان پر نزاکت کی
دیکھو آئی ہیں دکھنے کس جھمک سیں یہ چھنال انکھیاں
ایسے کیوں ٹوٹ آئیں جوش سیں پیارے حرارت کے
لگی تھی گرم ہو کر اس قدر یہ کس کے نال انکھیاں
علاج ان کا ہے پیارے عاشقوں کے سنگ کی ہلدی
رنگیں اس میں کہو کپڑا کریں اپنا رومال انکھیاں
مرا دل پوٹلی کی طرح ان پر لے کے ٹک پھیرو
مجرب ٹوٹکا ہے اس میں آ جاں گی بحال انکھیاں
ضرر ہے تند ہو کر دیکھنا بیمار کوں پیارے
ٹک اک پرہیز کر عاشق پے دو دن مت نکال انکھیاں
مرا دکھتا ہے جی یہ انمناہٹ دیکھ کر ان کا
ابلتا ہے بہت جب دیکھتا ہوں میں ملال انکھیاں
نذر بدتا ہوں اپنی جان و جی کو میں کروں صدقے
اگر دیویں مجھے اپنی شفا ہونے کی فال انکھیاں
سزا ہے ان کے تئیں یہ درد تھوڑا سا کہ کرتی تھیں
ہمیشہ چشم پوشی آبروؔ کا دیکھ حال انکھیاں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |