محبت سحر ہے یارو اگر حاصل ہو یک روئی
Appearance
محبت سحر ہے یارو اگر حاصل ہو یک روئی
یہ افسوں خوب اثر کرتا ہے لیکن جبکہ جادوئی
خیال ماسوا سیں صاف کر تو اپنے سینے کوں
کہ دل کے رشتۂ اخلاص کوں لازم ہے یکسوئی
لباس پنبئی بن کیونکے گزرے موسم سرما
قیامت ہے یہ تیری سرد مہری تس پے یہ سردی
اندھیرا آ گیا آنکھوں کے آگے خشم سوں میری
جبھی اس چھوکرے کی بو الہوس نیں زلف ٹک چھوئی
پسینے سیں ترے اے شوخ بو آتی ہے دارو کی
ایتی اے فتنہ گر سیکھی کہاں سیں تو نیں بد خوئی
مقابل دختر رز کی جبھی وہ مغبچہ بولا
اب اس کے دیکھ مارے شوق کے پانی ہو کرچوئی
ہوئے پھرتے ہو دشمن آبروؔ کے اے سجن اب تو
کہو الفت دلی اور دوستی جانی وہ کیا ہوئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |