اس دل کو ہمکنار کیا ہم نے کیا کیا
اس دل کو ہمکنار کیا ہم نے کیا کیا
دشمن کو دوست دار کیا ہم نے کیا کیا
رہتا یہی ہے دل میں شش و پنج یار سے
آئینہ کیوں دو چار کیا ہم نے کیا کیا
مٹھی بھرم کی غنچہ صفت اس چمن میں کھول
اسرار آشکار کیا ہم نے کیا کیا
در پردہ دوستی ہوئی ہم اپنے حق میں آہ
مطرب پسر کو یار کیا ہم نے کیا کیا
اسلام بھی بہ جبر تھا اے شیخ و برہمن
کیوں جبر اختیار کیا ہم نے کیا کیا
تسبیح تو پڑی تھی گلے ایک دوسری
زنار کو بھی ہار کیا ہم نے کیا کیا
دل کو دکھا کے چین جبین پری وشاں
جوں برق بے قرار کیا ہم نے کیا کیا
کہنے لگا وہ قبر پہ عاشق کی کیوں گزر
سہواً سر مزار کیا ہم نے کیا کیا
ہیہات آشنا تھے جو موج بلا کے پیچ
ان کا نہ انتظار کیا ہم نے کیا کیا
بحر جہاں سے دیدہ و دانستہ جوں حباب
با چشم تر گزار کیا ہم نے کیا کیا
دشت جنوں سے توڑ کے رشتے کو جیب کے
داماں بھی تار کیا ہم نے کیا کیا
اس سرو قد کے عشق میں یہ پھل ملا نصیرؔ
ہر صد آہ وار کیا ہم نے کیا کیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |