Author:شاہ نصیر
Appearance
شاہ نصیر (1756 - 1838) |
اردو شاعر |
تصانیف
[edit]غزل
[edit]- زلف کا کیا اس کی چٹکا لگ گیا
- زلف چھٹتی ترے رخ پر تو دل اپنا پھرتا
- یارو نہیں اتنا مجھے قاتل نے ستایا
- یاں سے دیں گے نہ تم کو جانے آج
- واں کمر باندھے ہیں مژگاں قتل پر دونوں طرف
- اٹھتی گھٹا ہے کس طرح بولے وہ زلف اٹھا کہ یوں
- اس کاکل پر خم کا خلل جائے تو اچھا
- ادھر ابر لے چشم نم کو چلا
- تو ضد سے شب وصل نہ آیا تو ہوا کیا
- ترے ہے زلف و رخ کی دید صبح و شام عاشق کا
- ترے دانت سارے سفید ہیں پئے زیب پان سے مل کر آ
- ٹانکوں سے زخم پہلو لگتا ہے کنکھجورا
- طلب میں بوسے کی کیا ہے حجت سوال دیگر جواب دیگر
- صبح گلشن میں ہو گر وہ گل خنداں پیدا
- شمیم زلف معنبر جو روئے یار سے لوں
- شب جو رخ پر خال سے وہ برقعہ کو اتارے سوتے ہیں
- سرزمین زلف میں کیا دل ٹھکانے لگ گیا
- سدا ہے اس آہ و چشم تر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں
- رنگ میلا نہ ہوا جامۂ عریانی کا
- قدم نہ رکھ مری چشم پرآب کے گھر میں
- پامال راہ عشق ہیں خلقت کی کھا ٹھوکر بھی ہم
- نکہت گل ہیں یا صبا ہیں ہم
- نہ ذکر آشنا نے قصۂ بیگانہ رکھتے ہیں
- نہ کیوں کہ اشک مسلسل ہو رہنما دل کا
- نہ دکھائیو ہجر کا درد و الم تجھے دیتا ہوں چرخ خدا کی قسم
- مل بیٹھنے یہ دے ہے فلک ایک دم کہاں
- میری تربت پر چڑھانے ڈھونڈتا ہے کس کے پھول
- میں نے بٹھلا کے جو پاس اس کو کھلایا بیڑا
- میں ضعف سے جوں نقش قدم اٹھ نہیں سکتا
- لیا نہ ہاتھ سے جس نے سلام عاشق کا
- لگا جب عکس ابرو دیکھنے دل دار پانی میں
- کیوں نہ کہیں بشر کو ہم آتش و آب و خاک و باد
- کچھ سرگزشت کہہ نہ سکے روبرو قلم
- خدا کے واسطے چہرے سے ٹک نقاب اٹھا
- خاندان قیس کا میں تو سدا سے پیر ہوں
- خال رخ اس نے دکھایا نہ دوبارا اپنا
- خال مشاطہ بنا کاجل کا چشم یار پر
- کر کے آزاد ہر اک شہپر بلبل کترا
- کبھو نہ اس رخ روشن پہ چھائیاں دیکھیں
- جوں ذرہ نہیں ایک جگہ خاک نشیں ہم
- جدا نہیں ہے ہر اک موج دیکھ آب کے بیچ
- جو رقیبوں نے کہا تو وہی بد ظن سمجھا
- جو گزرے ہے بر عاشق کامل نہیں معلوم
- جو عین وصل میں آرام سے نہیں واقف
- جسم اس کے غم میں زرد از ناتوانی ہو گیا
- جگر کا جوں شمع کاش یارب ہو داغ روشن مراد حاصل
- جب تلک چرب نہ جوں شمع زباں کیجئے گا
- اس دل کو ہمکنار کیا ہم نے کیا کیا
- ہم پھڑک کر توڑتے ساری قفس کی تیلیاں
- ہوا اشک گلگوں بہار گریباں
- ہو چکی باغ میں بہار افسوس
- ہاتھوں کو اٹھا جان سے آخر کو رہوں گا
- حرم کو شیخ مت جا ہے بت دل خواہ صورت میں
- ہار بنا ان پارۂ دل کا مانگ نہ گجرا پھولوں کا
- گو سیہ بخت ہوں پر یار لبھا لیتا ہے
- غرق نہ کر دکھلا کر دل کو کان کا بالا زلف کا حلقہ
- فرصت ایک دم کی ہے جوں حباب پانی یاں
- اک قافلہ ہے بن ترے ہمراہ سفر میں
- دل میں ہے کیا جانئے کس کا خیال نقش پا
- دل کو کس صورت سے کیجے چشم دلبر سے جدا
- دل جلوہ گاہ صورت جانانہ ہو گیا
- دل عشق خوش قداں میں جو خواہان نالہ تھا
- دکھا دو گر مانگ اپنی شب کو تو حشر برپا ہو کہکشاں پر
- دیکھ تو یار بادہ کش! میں نے بھی کام کیا کیا
- دم لے اے کوہ کن اب تیشہ زنی خوب نہیں
- چھوڑا نہ تجھے نے رام کیا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
- چشم میں کب اشک بھر لاتے ہیں ہم
- بے سبب ہاتھ کٹاری کو لگانا کیا تھا
- بے مہر و وفا ہے وہ دل آرام ہمارا
- بیاباں مرگ ہے مجنون خاک آلودہ تن کس کا
- بعد مجنوں کیوں نہ ہوں میں کار فرمائے جنوں
- بادہ کشی کے سکھلاتے ہیں کیا ہی قرینے ساون بھادوں
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |