کبھو نہ اس رخ روشن پہ چھائیاں دیکھیں
کبھو نہ اس رخ روشن پہ چھائیاں دیکھیں
گھٹائیں چاند پہ سو بار چھائیاں دیکھیں
فتادگی میں جو عزت ہے سرکشی میں کہاں
کہ نقش پا کی یہاں رہنمائیاں دیکھیں
بلائیں لیوے ہے ہاتھوں سے اس کی زلفوں کی
یہ دست شانہ کی ہم نے رسائیاں دیکھیں
چمن میں ناخن ہر برگ گل سے بلبل کی
ہزار رنگ سے عقدہ کشائیاں دیکھیں
زبان تیشہ بہت کام آئی اے فرہاد
جو عشق نے تری زور آزمائیاں دیکھیں
نظر میں اپنی وہ پھرتی ہیں صورتیں ہیہات
فلک نے خاک میں کیا کیا ملائیاں دیکھیں
کسو نے لی نہ خبر غرق بحر الفت کی
ان آشناؤں کی یہ آشنائیاں دیکھیں
ہماری اس کی کدورت کی وجہ کچھ نہ رہی
کہ آئنے نے دلوں کی صفائیاں دیکھیں
ہم اپنا تجھ کو ہوا خواہ جانتے تھے صبا
بہاریں تو نے بھی تنہا اڑائیاں دیکھیں
بیان کس سے کروں اپنی تیرہ بختی کا
اندھیری راتیں وہ اے دل پھر آئیاں دیکھیں
نصیرؔ کیجے وفا کب تلک بقول میرؔ
جفائیں دیکھ لیاں بے وفائیاں دیکھیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |