جو گزرے ہے بر عاشق کامل نہیں معلوم
جو گزرے ہے بر عاشق کامل نہیں معلوم
جبریل ہے ہر آن میں نازل نہیں معلوم
کیا پردۂ غفلت ہے کچھ اے دل نہیں معلوم
رہتا ہے شب و روز وہ نازل نہیں معلوم
ہر دم یہی رہتا ہے یہاں دل میں پس و پیش
جینے کا بجز مرگ کچھ حاصل نہیں معلوم
رخ دیکھ کے حیراں ہوں ترا جوں گل خورشید
چھٹ تیرے مجھے کوئی مقابل نہیں معلوم
بخشش یہ جو رکھتا ہے بکف بحر ہے کشتی
کیا جانیے یہ کس سے ہے سائل نہیں معلوم
بے تھاہ ہو کیا بحر حقیقت کا شناور
جس کا کہیں آخر لب ساحل نہیں معلوم
کیوں رہتے ہیں نت ریوڑی کے پھیرے میں عاشق
اس کے لب شیریں پہ کہیں تل نہیں معلوم
جراح یہ کہتا ہے مجھے دیکھ کے بے دم
کس تیغ نگہ کا ہے یہ گھائل نہیں معلوم
جوں آئینہ حیرت زدہ یاں دیکھوں ہوں سب کو
کیا جانیے کس پر ہوں میں مائل نہیں معلوم
چل چل کے رہ عشق میں جوں نقش قدم ہم
تھک بیٹھے نصیرؔ اب ہمیں منزل نہیں معلوم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |