Jump to content

دیکھ تو یار بادہ کش! میں نے بھی کام کیا کیا

From Wikisource
دیکھ تو یار بادہ کش! میں نے بھی کام کیا کیا
by شاہ نصیر
298256دیکھ تو یار بادہ کش! میں نے بھی کام کیا کیاشاہ نصیر

دیکھ تو یار بادہ کش! میں نے بھی کام کیا کیا
دے کے کباب دل تجھے حق نمک ادا کیا

کیوں سگ یار سے خجل مجھ کو پس از فنا کیا
کھا گیا استخواں مرے تو نے یہ کیا ہما کیا

زخم جگر سے دم بدم کب نہیں خوں بہا کیا
تو بھی نہ قاتل اپنے سے دعویٔ خوں بہا کیا

اس بت رشک گل نے جب بند قبا کو وا کیا
اپنی نظر یہ غنچہ دو ہاتھ سے پھر ملا کیا

کون سے دن نہ یار نے چشم کو سرمہ سا کیا
کب نہ دل سیاہ بخت خاک میں تو ملا کیا

دل بر شعلہ خو نے جب زلف کو رخ پہ وا کیا
دل پہ میں سورۂ دخاں کرنے کو دم پڑھا کیا

بادہ کشی کو ساقیا کس کی مجھے بتا حباب
زور بھنور کے چاک پر ساغر مے بنا کیا

وصل کی رات ہم نشیں کیونکہ کٹی نہ پوچھ کچھ
برسر صلح میں رہا تس پہ بھی وہ لڑا کیا

پائے نگار سے لپٹ چور بنی تو آپ کو ہی
ہاتھ نہ کیوں ترے بندھیں کام یہ کیا حنا کیا

دل کی جدائی کا کہوں کس سے میں ماجرائے غم
سیل سرشک چشم تر شام و سحر بہا کیا

شکل عصائے موسوی تھا تو وہ گیسوئے دراز
پر اسے دست شانہ نے دے کے خم اور دوتا کیا

زیب سر شہاں کبھی تو نے نہ دیکھا تیرہ بخت
بال مگس نے کب دلا کار پر ہما کیا

تار نفس الجھ گیا میرے گلو میں آ کے جب
ناخن تیغ یار کو میں نے گرہ کشا کیا

بوسۂ لب سے ایک دن اس کے ہوا نہ کامیاب
دلبر بد زباں کی میں گالیاں ہی سنا کیا

آ کے سلاسل اے جنوں کیوں نہ قدم لے بعد قیس
اس کا بھی ہم نے سلسلہ از سر نو بپا کیا

منہ تو نہ تھا یہ غیر کا اس کو کھلائے برگ پاں
پر نہ مرا جو بس چلا خون جگر پیا کیا

اس کی شکستگی کا غم کیوں نہ ہو مجھ کو ساقیا
میری بغل میں آہ یاں شیشۂ دل رہا کیا

تار نفس جدا کیا بربط تن سے میرے آہ
کودک مطرب اور کیا تجھ کو کہوں بجا کیا

کوہ کو کھینچتا جو تو کاہ ربا تو جانتے
اک پر کاہ کو اٹھا ناز کیا تو کیا کیا

کیوں ہو خضر رہ رواں خاک نشینی پہ مری
جس نے بشکل نقش پا مجھ کو ہے رہ نما کیا

شعلہ رخوں کے عشق نے کنج مزار میں بھی آہ
سونے دیا نہ چین سے میں تو سدا جلا کیا

مجھ کو ہے ہجر و وصل ایک اس کی خوشی نہ اس کا غم
کیسی مصیبتوں کے دن بار خدا بھرا کیا

وصل ہوا تو یہ ہوا مار سیاہ جان کر
رات بھر اپنی زلف کے سائے سے وہ ڈرا کیا

اور میں مدعا طلب عیش سے ناامید ہو
شعلۂ شمع کی طرح سر کو پڑا دھنا کیا

مدرکۂ بشر ہے کیا پائے جو اس کی کنہ کو
چاہا جو اس نے سو کیا کون کہے کہ کیا کیا

یعنی بنا کے چشم کو صورت شیشۂ حباب
صاحب ظرف تھا جو دل جام جہاں نما کیا

اپنی شرارتوں سے وہ باز نہ آیا اے نصیرؔ
مجھ کو رلا کے ابر ساں برق نمط ہنسا کیا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.