پامال راہ عشق ہیں خلقت کی کھا ٹھوکر بھی ہم
پامال راہ عشق ہیں خلقت کی کھا ٹھوکر بھی ہم
جوں شیشہ نازک تر تھے کیا سختی میں ہیں پتھر بھی ہم
آئینہ دل کا صاف کر کہلائے صیقل گر بھی ہم
اپنے سوا دیکھیں کسے اندر بھی ہم باہر بھی ہم
جاں بر ہو ان سے کیونکہ دل کہتی ہیں پلکیں یار کی
نیزہ بھی ہم ناوک بھی ہم برچھی بھی ہم خنجر بھی ہم
اشکوں کی دولت کیوں نہ ہو سلطان اقلیم جنوں
رکھتے ہیں ساتھ اپنے سدا لڑکوں کا اک لشکر بھی ہم
چنوا کے ابرو مجھ سے کیا وہ ہنس کے فرمانے لگے
اس تیغ کے دم لے سدا دکھلائیں گے جوہر بھی ہم
کیا خاک کیجے مے کشی اے ساقیٔ گلفام آ
گریاں ہیں مثل ابر کیا جوں برق ہیں مضطر بھی ہم
کہتے ہیں وہ پاں خوردہ لب یاقوت کے ٹکڑے تو تھے
کہلائے لیکن آج سے برگ گل احمر بھی ہم
اے شوخ دانتوں کا ترے یاں یہ تصور ہے بندھا
دن رات چشم تر سے یاں برساتے ہیں گوہر بھی ہم
رکھتے تو ہیں گرداب یم پر ڈر ہے یہ اے چشم تر
گرداب دریا کی طرح کھاتے ہیں یاں چکر بھی ہم
جو چاہے کر جور و جفا پر دل کا مہر داغ سے
روز قیامت کوسنا دکھلائیں گے محضر بھی ہم
قد سے نصیرؔ اس کے سدا اک شور محشر ہے بپا
چھوٹے عذاب قبر سے کیا خاک یاں مر کر بھی ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |