خاندان قیس کا میں تو سدا سے پیر ہوں
خاندان قیس کا میں تو سدا سے پیر ہوں
سلسلہ جنبان شور خانۂ زنجیر ہوں
خاکساری کے ابھی تو درپئے تدبیر ہوں
کشتہ ہو کر خاک جب ہوں تب کبھی اکسیر ہوں
ضعف نے گو کر دیا ہے جوں کماں گوشہ نشیں
اب بھی چلنے کو جو پوچھو تو سراسر تیر ہوں
رشتۂ الفت نے باندھے ہیں پر پرواز آہ
دام حیرت میں برنگ بلبل تصویر ہوں
تجھ سے یہ عقدہ کھلے گا اے نسیم صبح دم
غنچے کی مانند اس گلشن میں کیوں دلگیر ہوں
منتظر چشم رکاب اے صید افگن ہے ہنوز
بوسۂ فتراک کی خواہش ہے وہ نخچیر ہوں
فقر کی دولت کے آگے سلطنت کیا مال ہے
بسترے پر اپنے اے روبہ مزاجو شیر ہوں
سچ ہے اپنے دم سے قائم ہے یہ بنیاد جہاں
رونق افزائے چمن آرایش تعمیر ہوں
جیسی چاہے ویسی لے مجھ سے قسم قاتل نہ ڈر
حشر کو بھی گر کبھی تیرا میں دامن گیر ہوں
اہل جوہر ہی مرے مضموں کو سمجھے ہے نصیرؔ
میں بھی اقلیم سخن میں صاحب شمشیر ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |