میں نے بٹھلا کے جو پاس اس کو کھلایا بیڑا
Appearance
میں نے بٹھلا کے جو پاس اس کو کھلایا بیڑا
قتل پر میرے رقیبوں نے اٹھایا بیڑا
مشتعل تا بہ فلک آتش پر دود ہوئی
مل کے جس وقت مسی تم نے چبایا بیڑا
سرخ رو ہو کے یہ کس منہ سے تو اب بولے ہے
میں نے کس روز ترے ہاتھ سے پایا بیڑا
میری اور آپ کی مجلس میں بگڑ جائے گی
تم نے دینے کو کسی کے جو بنایا بیڑا
سبز بختی کہوں کیا اپنی کہ وہ جان گیا
پڑھ کے افسوں میں کھلانے کو جو لایا بیڑا
لال کر دوں گا ابھی بزم میں منہ کتنوں کے
ہاتھ سے تو نے کسی کو جو کھلایا بیڑا
اے نصیرؔ اس کے گلے کا ہوں نہ میں کیوں کر ہار
آج گل رو نے مجھے دیکھ چبایا بیڑا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |