بعد مجنوں کیوں نہ ہوں میں کار فرمائے جنوں
Appearance
بعد مجنوں کیوں نہ ہوں میں کار فرمائے جنوں
عشق کی سرکار سے ملبوس رسوائی ملا
خوب سا سیدھا بنے گا دیکھ اے سرو چمن
اس کی رعنائی سے مت تو اپنی زیبائی ملا
جل گیا پروانہ جس دم محفل آرائی کے ساتھ
خاک میں سب شمع نے دی محفل آرائی ملا
طالع بیدار کی منت اٹھانے بھی نہ دی
اس سے شب ہم کو تمنا خواب میں لائی ملا
اپنی قسمت میں ازل سے تھی لکھی سرگشتگی
گرد و باد آسا جو کار دشت پیمائی ملا
واہ وا رحمت ہے اس کو اور مجھ کو آفریں
راہ میں بن کر عصا جو خار صحرائی ملا
دستگیری بھی نہ کی تو نے کہ جو نقش قدم
خاک میں میں تیری خاطر اے توانائی ملا
سرکشی اے چرخ مت کر دیکھ پیش آفتابؔ
خاک میں دے گا یہ ساری تیری خود آرائی ملا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |