غرق نہ کر دکھلا کر دل کو کان کا بالا زلف کا حلقہ
غرق نہ کر دکھلا کر دل کو کان کا بالا زلف کا حلقہ
بحر حسن کے ہیں یہ بھنور دو کان کا بالا زلف کا حلقہ
ہالۂ مہ پہنچے ہے نہ اس کو نے خط ساغر اس کو لگے ہے
آئینہ تم لے کر دیکھو کان کا بالا زلف کا حلقہ
آہوئے دل اور طائر جاں کے حق میں یہ دونوں پھندے ہیں
ہم کو دکھا کر تم نہ چھپاؤ کان کا بالا زلف کا حلقہ
آج سوائے شانے کے یاں کس کا منہ ہے کون ہے ایسا
چھوڑے تمہارے چہرے پر جو کان کا بالا زلف کا حلقہ
دونوں تیرے عارض پر دن رات ملے یہ رہتے ہیں
عینک مہر و ماہ نہ کیوں ہو کان کا بالا زلف کا حلقہ
طیش زنی میں یہ عقرب ہے کالا ہے وہ کنڈلی مارے
حضرت دل باز آؤ نہ چھیڑو کان کا بالا زلف کا حلقہ
کس کو حصار حسن کہوں میں کس کو خط پرکار کہے دل
منہ سے الٹ برقع کو دکھا دو کان کا بالا زلف کا حلقہ
یہ ترے رخ کے بوسے لیں اور ترسیں مری آنکھیں اے وائے
دیکھ کے کیوں رشک آئے نہ مجھ کو کان کا بالا زلف کا حلقہ
آج زلیخا گر یہاں ہوتی دام کمند و چاہ میں پھنستی
دیکھ مرے یوسف کا عزیزو کان کا بالا زلف کا حلقہ
کیونکہ نصیرؔ ارباب سخن تحسیں نہ کریں سن کر یہ غزل
جبکہ تم اس صورت سے باندھو کان کا بالا زلف کا حلقہ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |